عظیم آباد پٹنہ میں بارہوین شریف کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ
مفتی ڈاکٹر امجدرضاامجدؔ
قاضی شریعت مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ بہار
تاریخ دانوں سے یہ مخفی نہیں کہ آج کے پٹنہ اور گزشتہ کل کے عظیم آباد میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔یہ فرق عقیدہ وعمل کے اعتبار سے بھی ہے اور تہذیب وتمدن کے اعتبار سے بھی ۔جن بزرگوں نے لمبی عمر پائی ہے انہیں آج کے حالات عجیب معلوم ہوتے ہوں گے اور اگر بات ایک صدی نہیں ڈیڑھ صدی کی ہوتو پھر ان کے تحیر کا پوچھنا ہی کیا؟انقلابات سے دنیا بھری پڑی ہے عظیم آباد بھی اس انقلاب سے باہر نہیںرہا۔شہنشاہ اورنگ زیب کے جس پوتے ’’عظیم الشان ‘‘نے پاٹلی پوترا سے پٹنہ بننے والے شہر کو۱۷۰۳ ءمیںبڑے سلیقے سے اسے آباد کیا اور اپنے نام پر اس کانام’’عظیم آباد‘‘ رکھاتھا، اب پھر پٹنہ ہوگیاہے اورجسے پاٹلی پتراکی طرف پلٹانے کی درپردہ کوشش جاری ہے۔
ایسے عظیم الشان تاریخی شہر کے احوال وکوائف ،مذہبی وعلمی تاریخ اور ادبی اور سیاسی اتھل پتھل کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی گئیں جن میں :
سید بدرالدین صاحب کی حقیقت بھی کہانی بھی
سید بدرالدین کی یادگاروزگار
شاد عظیم آبادی کی تاریخ بہار ؍نقش پائیدار
حسیب اللہ عمادی تذکرۃ الصالحین
فصیح الدین بلخی پٹنہ کے کتبے
اہمیت کی حامل ہیں اور بار بار یہ کتابیں حوالہ کے طور پہ پیش ہوتی رہی ہیں۔ اسی تجسس میں میری نگاہیں بھی بعض کتابوں تک پہنچ گئیں مطالعہ سے جہاں علم میں اضافہ ہواوہیں کچھ باتیں ایسی بھی معلوم ہوئیں جنہیں ’’حلوہ تنہا نہ باید خورد‘‘کے طور پر قارئین تک پہنچانا زیادہ مناسب معلوم ہوا۔
واضح رہے کہ یہ کتابیں مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے لئے گنجہائےگرانمایہ سے کم نہیں ہیں۔مثلاًخانقاہوں سے لے کر مدارس تک ،علماسے لے کر عرفا تک ،ادباسے لے کر شعراتک،اشراف سے لےکرفساق تک، جلسوں سے لےکرمیلوں تک اور ساکنان شہر سے لے کر واردین شہر تک کے احوال اس میںمزے لے لے کر بیان ہوئے ہیں ۔ان میںبظاہرایسا کچھ چھوڑانہیں گیا ہے جسے کسی کمی کانام دیاجاسکے۔اس واقعہ نگاری میں وہ فسوں کاری ہوئی ہے کہ کتاب پڑھتے ہی بنتی ہے۔اس سے جہاں مصنف ومؤلف کی یادداشت اور باریک بینی کا پتہ چلتاہے وہیں یہ بھی کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اگر حفاظت سے تاریخ کے اوراق میں رکھ دی جائیں تو بعد میں وہ قند مکررہی نہیںحوالے کا فائدہ بھی دیتی ہیں ۔
سید بدرالدین احمد بدر کی کتاب ’’حقیقت بھی کہانی بھی‘‘میں ایک ایساموضوع بھی کتاب کا حصہ بناہے جو یہ بتاتاہے کہ عظیم آباد میں پرکھوں کی کیاکیاچیزیں رائج تھیں جنہیںآج کچھ لوگ بدعت کے نام پر بند کرانے کے در پے ہیں۔چنانچہ کتاب کے صفحہ ۲۸۶ پر ایک عنوان ہے
پٹنہ میں ماہ ربیع الاول میں میلاد شریف کی مجلسیں
چارصفحہ میں پھیلا ہوا، ان کا یہ مضمون، اہل عظیم آباد کی خوش عقیدگی،سرورکائنات ﷺ سے ان کاوالہانہ عشق ،بارہویں شریف کے موقع سے ان کے جذبات کا تلاطم ،آمد سرکارﷺ پہ جلسہ وجلوس کا اہتمام اور ان کی بارگاہ میں نذرونیاز پیش کرنے کا جوش ولولہ سب کچھ بیان کرتاہے ۔یہ چارصفحہ بظاہر چندسطروں کا مجموعہ ہے مگر مذہبی روایت کے حوالہ سے یہ اہل عظیم آباد کی ایک پوری تاریخ ہے،جو ہم سے ع
وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کا مطالبہ کرتی ہے ۔
جناب سید بدرالدین احمدبدرعظیم آبادی صاحب کا زمانہ انیسویں صدی کے نصف آخر کا ہے آپ ۱۸۶۲ءمیں بہار شریف میں پیداہوئے پٹنہ اور کلکتہ سے اعلی تعلیم کی ڈگری لی ۔پھر مستقل پٹنہ میں ہی رہائش اختیار کرلی۔ سن ۱۹۸۳ء میںاپنے آبائی مکان پٹنہ صدر گلی میں انتقال کیا ۔خانقاہ عمادیہ پٹنہ سیٹی میں حضرت مولانا سید شاہ فرید الحق عمادی نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ محلہ کٹرہ پٹنہ سیٹی میں دفن ہوئے ۔(بحوالہ مقدمہ ’’حقیقت بھی کہانی بھی ‘‘از قلم ڈاکٹر شکیب ایاز )اس حساب سے ان کی عمر تقریبا ۱۲۰ سال ہوتی ہے ۔اس طویل عمر میں انہوں نے کیا کیا انقلابات نہیں دیکھے ہوں گے، مگر ان تمام سے صرف نظر کرکے انہوں نے اس کتاب میں ’’صرف پٹنہ کے واقعات اور تذکروں کو سمیٹاہے‘‘اور کتاب کے آغاز میں ’’عظیم آباد کی تہذیبی داستان ‘‘لکھ کر یہ واضح کردیاہے کہ اس کتاب کا مرکزی موضوع ایک شہر کی تہذیبی داستان ہے۔
یہ کتاب بدرعظیم آبادی کے انتقال ۱۹۸۳ءکے ۵؍سال بعد ۱۹۸۸ء میں پہلی بار بہاراردواکیڈمی سے شائع ہوئی ۔پھر اس کا دوسرا ایڈیشن ۲۰۰۳ میں بہار اردواکیڈمی ہی سے جناب ڈاکٹر رضوان احمد صاحب کے دور نظامت مین شائع ہوا۔جولوگ بدرعظیم آبادی کی شخصیت ،ان کے احوال اور ان کے کارنامہ سے واقف ہیںوہ ا س کتاب کو بھی اسی اہمیت کے اعتبار سے دیکھتے ہیں اور دیکھنا چاہئے۔
کتاب مذکور کے صفحہ ۲۸۶ پر ’’پٹنہ میں ماہ ربیع الاول میں میلاد شریف کی مجلسیں ‘‘کے تحت جوکچھ انہوں نے لکھاہے وہ ان کا چشم دید ہے۔ان محافل میں ان کی شرکت رہی ہے اس لئے اسے قند مکرر ہی نہیں آج کی متعصب ذہنیت کی اصلاح کے لئے پیش کرنا ضروری معلوم ہوتاہے ،تاکہ کتاب وسنت کے ساتھ مذہبی وتہذیبی روایت پہ یقین رکھنے والے حضرات کے لئے ان کی یہ تحریر چشم کشا ثابت ہو۔مضمون کے شروع میں ماہ ربیع الاول کی اہمیت اور اس ماہ کے حوالہ سےمسلمانوں کے عام جذبات کا تذکرہ کرتے ہوئے بدر صاحب لکھتے ہیں:
ماہ ربیع الاول کا پورا مہینہ مسلمانوں کے لئے متبرک ہے۔ اس ماہ مبارک میں حضورسرور عالم اور ﷺ کی ولادت باسعادت ہے۔ پٹنہ میں اور ہر جگہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں مسلمان آباد ہیں، جب یہ ماہ مبارک آتا ہے تو ان پر محبت رسول اکرم ﷺ کا جذبہ طاری ہو تا ہے اور یہ اپنے انداز میں میلاد شریف کی محفلیں ترتیب دیتے ہیں اور حضرت محمد ﷺ کی سیرت کے بیان کے لئے بزم میلاد برپا کرتے ہیں۔ ہر جگہ ڈھنگ جدا ہو تو ہومگر محبت رسول میں ایک ہی طرح سب کے دل مچلتے ہیں۔
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ اہل عظیم آباد ہی نہیں عام مسلمانوں کا مذہبی مزاج بارہویں شریف کے حوالہ سے یکساں رہاہے ،وہ اس تاریخ میں ہروہ پاکیزہ عمل کرناعبادت سمجھتے رہےہیں جس سے محبت رسول کاوالہانہ اظہار ہو۔اسی مضمون میں آگے بدرعظیم آبادی پٹنہ میں بارہویں شریف کے عام اہتمام کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتےہیں:
پٹنہ میں ہر جگہ مہینہ بھر، امیروں اور غریبوں کے یہاں میلاد شریف کی محفلوں کی دھوم دھام رہتی تھی۔ محفل میلاد کے دن گھروں کو خوب سجاتے، نئے کپڑے پہنتے اور اپنے بچوں اور متوسلین کو نئے کپڑے پہناتے مسلمانوں کے ساتھ اپنے ہندو احباب کو بھی بلاتے۔ محفل میلاد کے ختم ہو جانے کے بعد ہر طرح کی مٹھائیاں بنتیں۔ ہندؤں کے لئے الگ مٹھائیاں اور پھلوں کا حصہ نکال کر رکھ دیا جاتا، جو شریک ہونے والوں کو ہندو ہی کے ہاتھ سے ملتے اور سب خوش خوش واپس جاتے۔ کہیں کہیں محفل میلاد شریف کے اختتام کے بعد کھانے کی دعوت ہوتی اور محفل میلاد منعقد کرنے والا بڑی فراخ دلی کے ساتھ غریبوں اور امیروں کو یکساں عمدہ طرح طرح کے کھانے ،بلا تخصیص ،دستر خوانوں پر ساتھ ہی کھلا تا۔ یہ میلاد شریف کی محفلیں کہیں دن میں کہیں رات میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ رات کے وقت جہاں میلاد شریف کی محفل برپا ہوتی وہاں مکانوں کی سجاوٹ بھی دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ صرف وہی مکان نہیں جہاں محفل میلاد منعقد ہوتی ،بلکہ ان گلیوں اور سڑکوں کو بھی سجاتے جہاں پر مکان واقع ہو تا۔
اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ڈیڑھ سوسال قبل اہل عظیم آباد اس تاریخ کے حوالہ سے کیسی تاریخ رکھتے ہیں۔واضح رہے کہ یہ اس وقت کی تاریخ ہے جب یہاں اہل سنت کے علاوہ بظاہراور بااثر کوئی فرقہ نہیں تھا۔جیسے جیسےیہاں فرقے سر ابھارتے رہے،ویسے ویسے یہاںکی فضامکدر ہوتی چلی گئی۔پیچھے مڑ کر دیکھئے اسی مضمون میں مصنف کتاب عظیم آباد کے بعض محلوں میں محفل میلاد النبی ﷺ کے انعقادکی کیفیت اور بارگاہ خیرالانام ﷺ میں مال ومتاع خرچ کرنے کاجذبہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
صدر گلی اور پیڑھی گھاٹ کی محفل میلاد بہت مشہور تھی۔محفل میلاد ختم ہو جانے کے بعدمعزیزین ،شرفاء، امراءاور سب کے لئے کھانے کے بڑے بڑے دستر خوان تیار رہتے ۔امیر غریب سب ایک ہی دستر خوان پر کھاتے اوراس میں کوئی تخصیص نہیں ہوتی تھی۔گیارہ بجے دن سے بڑے بڑے دستر خوان بچھتے اور اٹھتے رہتے تھے اور غروب آفتاب تک یہ ضیافت جاری رہتی ۔میر احمد حسین مرحوم اور اس کے بڑے بھائی میر واحد حسین مرحوم دونوںحضرات دسترخوانوں کا چکر لگا کر دیکھتے رہتے کہ کسی دستر خوان پر کوئی چیز کم تو نہیں پہونچی ہے ۔جب میر احمد حسین کا انتقال ہوگیا ان کے بڑے بھائی میر واحد حسین کہ یہاں محفل میلاد منتقل ہوگئی،وہاں بھی سولہ آنہ یہی انداز رہا ۔ان کے انتقال کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے خان بہادر میر ابراہیم حسین مرحوم نے بھی بڑے حوصلے کے ساتھ اسی انداز میں محفل میلاد شریف کو جاری رکھا۔جب زمین داری ختم ہو گئی تو اس طرح پر محفل میلاد شریف کے موقع پر سبھوں کی ضیافت بھی نہ رہی۔
یہ جوش یہ جذبہ اور یہ دیوانگی یقیناًمحبت والوں کو ملاکرتی ہے ،اور یہ محبت رب کاانعام اور اس کی توفیق ہے کچھ خاص دل ہی ہوتے ہیں جو محبت کے لئے منتخب کئےجاتے ہیں جنہیں محبت میں رسول میں سرشاری کی کیفیت میسر آگئی وہ محبت میں ایک جان نہیں، ہزاروں جانیںقربان کرنا بھی اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں اعلیٰحضرت امام احمدرضانے کیا خوب فرمایا ؎
کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دوجہاں فدا
دوجہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کروروں جہاں نہیں
آفریں ہے، ان خو ش بختوں کے لئے، جو آمد مصطفےٰ ﷺ کورب کاانعام اور رب کی رحمت سمجھتے ہوئے خوشی ومسرت کا والہانہ اظہار کرتے ہیںاپنی زندگی وبندگی کو محبوب کائنات ﷺ کاصدقہ سمجھتے ہیںاور اس اظہار محبت کی برکتوں سے دونوںجہاں کی بھلائیاں سمیٹتے ہیں۔
مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے بانی عالی جناب سید نورالہدیٰ صاحب، عظیم آباد کا ایک معروف علمی اور معتبر نام ہے۔ و ہ عقیدہ کے اعتبار سے سنی صحیح العقیدہ تھے ،جنہیں عرف عام میں بریلوی کہا جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے مدرسہ شمس الہدیٰ قائم کرکے اسے وقف کیاتو اس کے قبالہ میں بارہویں شریف کے حوالہ سے میلاد النبی کے اہتمام اور سلام مع القیام کا خصوصاً ذکر کیا۔جب تک خوش عقیدہ اور اہل دل حضرات کے ہاتھوں میں یہ مدرسہ رہا،قبالہ میں ذکر ہدایات پہ عمل ہوتارہا،اب تو ایسے شرفاوہاں قابض ہیں کہ وقف سے فائدہ اٹھانا ان کے نزدیک جائز ہےمگر واقف کی منشااوراس کی ہدایت پہ عمل کرناناجائز۔اس دورنگی پالیسی کو کیانام دیاجائے قارئین ہی فیصلہ کرسکتے ہیں۔
بہر حال جناب بیرسٹر نورالہدیٰ صاحب سنی صحیح العقیدہ ہونے کے سبب بارہویں شریف کااہتمام بڑی محبت اور عقیدت سے کرتے تھے۔ان کے گھر میلاد النبی ﷺ کے انعقاد کی کیفیت ہوا کرتی تھی، سیدبدرالدین احمد عظیم آبادی اس کا نقشہ کھینچتے ہیں:
مسٹر سید نور الہدی مرحوم کے یہاں بھی بانکی پور میں محفل میلاد شریف بڑے اہتمام سے رات کے وقت ہوتی تھی۔ محفل میلاد شریف کے ختم ہو جانے کے بعد جو حضرات شریک محفل میلاد ہوتے، ان کے لئے نفیس کھانوں کا انتظام رہتا۔ مسٹر سید نور الہدی مرحوم بڑے خلوص کے ساتھ سبھوںں کو کھانا کھلاتے۔ کچھ لوگ اگر محفل میلاد شریف کی شرکت سے رہ جاتے، تو بعد میں جب ان سے ملاقات ہوتی تو مسٹر نور الہدی مرحوم ان سے بڑے مخلصانہ طور پر ان کے یہاں کی محفل میلاد شریف میں شریک نہیں ہونے کی شکایت کرتے۔
پٹنہ سیٹی کے کنگھیاٹولہ کا نام آج بھی زندہ ہے ۔جناب قاضی نجم الدین صاحب کی رہائش اسی محلہ میں تھی ۔اہل ثروت کے ساتھ وہ اہل دل بھی تھے۔سرکار ﷺ کا کھاتے تھے تو ان کی راہ میں لٹاتے بھی بہت تھے ۔بارہویں شریف آتی تو ان کے جذبات کا عالم دیدنی ہوتا ۔جناب سید بدرالدین صاحب ان کے ولولہ عشق کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
محلہ کنگھیا ٹولہ میں قاضی نجم الدین صاحب مرحوم رہتے تھے۔ جب ربیع الاول کا مہینہ شروع ہونے کو ہو تا، تو یہ اپنے پورے مکان کی صفائی کراتے اور پورے مکان کی سجاوٹ میں لگ جاتے ۔ لب سڑک ان کے کوٹھے کے باہر نکلے ہوئے پیچھے اور بالکنیاں رنگ برنگ کے جھار کو نڈیوں، شیشے کی نفیس دیوار گیروں اور قمقوں سے بھری رہتیں۔ ان کے مکان سے لگے ہوئے دور تک اور بھی رئیسوں کے مکانات تھے ،سبھی اپنے اپنے مکانوں کو اسی طرح سجاتے۔ کمروں کو کوٹھے کے چھجوں اور بالکنیوں کو بھی یہ سب جھار کھنڈیوںسےسجاتے ہے ۔ چند ہندو حضرات بھی اپنے اپنے مکانوں کو سجاتے اور روشنیوں کا انتظام کرتے ۔ تین دن یعنی ربیع الاول کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخ کی راتوں میں جب تمام جھاڑ فانوس کو نڈیاں قند یلیں اور دیوار گیریں محلہ کے بڑے چھوٹے ایک سے ایک لگے ہوئے مکانات میں اندر باہر روشن کی جاتیں تو بڑا دل فریب نظارہ ہو تا۔ اسی محلہ میں قاضی نجم الدین صاحب مرحوم ایک کشادہ کھلی ہوئی زمین میں انہیں دنوں تک ایک میلہ بھی لگاتے تھے جس کا نام انھوں نے مصطفی بازار رکھا تھا۔۔ قاضی صاحب اٹھ گئے تو یہ سب چیزیں بھی ختم ہو گئیں۔
اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عظیم آباد نے بارہویں شریف کے حوالہ سے اپنے دامن میں کیسی کیسی تاریخیں سمیٹ رکھی ہیں ۔یہ دور وہ تھا جب یہاں اہل سنت کا غلغلہ تھا، شور صل علیٰ سے گلی کوچے محلے آباد رہتے تھے،خانقاہوں سے وابستہ افراد عشق مصطفےٰ ﷺ کی تپش سے اپنے سینے کو آبادرکھےہوئے تھے۔دھیرے دھیرے یہاںبنام اسلام مختلف نوعیت کے مراکز قائم ہوتے گئے ،انگریزوں کے آلہ کار بننے والے افراد’’ اختلاف کرو اور حکومت کرو‘‘کی پالیسی کا حصہ بن کراللہ والوں کی نشانیوںکو ناجائز حرام بدعت کہہ کر ختم کرنے لگے ۔بلاشبہ بارہویں شریف فرض وواجب نہیں مگر محبت رسول زندہ رکھنے کا ایک مجرب نسخہ ضرور ہے۔یہی محبت رسول ہمارے ایمان کی بنیاد ہے ۔یہ باقی ہے ایمان باقی ہے یہ اگر ختم ہوگیا سب ختم ہوجائےگا۔خداوہ دن نہ لائے کہ ایک لمحہ کے لئے ہمارا دل محبت رسول کے جذبہ سے خالی ہو۔
مسلمانوں کاوہ طبقہ جو آج بھی علامت محبت مصطفےٰ کی اس روایت ’’میلاد ،جلسہ جلوس‘‘ کو زندہ رکھے ہوئے ہے،وہ گویا شجر عشق مصطفےٰ کا ایک حصہ ہے ۔اللہ تعالیٰ اس پاکیزہ روایت سے وابستہ رکھے۔ سنت مصطفےٰ کا پیروکار بنائے اور اسوہ رسول اکرم ﷺ پہ چلنے کی توفیق ارزانی فرمائے ۔