imam ahmad raza imamul asfaya

  • Home
  • imam ahmad raza imamul asfaya

imam ahmad raza imamul asfaya

image


امام احمد رضاامام الاصفیا 

ڈاکٹر محمد امجدرضاامجد:قاضی شریعت مرکزی دارالقضاادارہ شرعیہ بہار پٹنہ
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ عظیم الشان فقیہہ ومجددہونےکے ساتھ بلندپایہ صوفی ومرشد بھی ہیں یہ ایک زندہ حقیقت ہے،اہل علم وصاحبان بصیرت شرح صدر سے اس کا اظہار کرتے رہے ہیں ۔مگریہ المیہ ہے کہ دنیاکے سامنےان کی زندگی کا صرف ایک رخ’’فقاہت‘‘ زیادہ نمایاں ہوا ،باقی اوصاف اپنی جلالت شان کے باوجود پردہ خفا میں رہے ۔غالبا یہی وجہ ہے کہ نئی نسل انہیں فقاہت میں اصحاب ترجیح بلکہ اپنے عہد کا ثانی امام اعظم تک مانتی ہے مگرمعرفت و طریقت میں انہیں صوفی ماننے اور کہنے میں شرح صدر کامظاہرہ نہیں کرتی ۔حالانکہ امام احمد رضاجس طرح مسائل شریعت میں درجہ امامت اور مرتبہ اجتہاد پر فائز ہیں اسی طرح معرفت وطریقت میں بھی امامت واجتہاد کےمنصب رفیع پر متمکن ہیں۔
امام احمد رضاکے تین اوصاف ایسے ہیں جس کے سبب ان کی شخصیت اس عہد میں بہت نمایاں اور ممتاز نظرآتی ہے :[۱] فقاہت[۲]تجدید[۳]  تصوف
یہ تینوں الگ الگ اوصاف اور مناصب ہیں مگر یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے کہ اس نے امام احمد رضاکی ایک ذات میں یہ تینوں اوصاف جمع فرمائے اور ان میںبھی انہیںوہ مقام عطافرمایا جس کی نظیر مشکل ہے۔
جہاں تک امام احمد رضاکی فقاہت کامعاملہ ہے تو اس موضوع پر ان کے رسائل اور فتاویٰ رضویہ کی مکمل جلدیںاس دعویٰ کابین ثبوت ہیں کہ آخر کی کئی صدیوں میں ایسا فقیہہ پیدا نہیں ہوا۔یہی بات ڈاکٹر اقبال جیسے مفکر نے بھی اپنے تاثر میں کہی ۔جنہوں نے بذات خودان کتابوں کا مطالعہ کیاہے انہیں اس کا عرفان حاصل ہے اور وہ برملااس کااعتراف کرتے ہیں ’’تازہ خواہی داشتن گرداغہائے سینہ را ‘‘کے طور پر چند شواہد ملاحظہ کیجیے :  علامہ سید اسمٰعیل خلیل مکی :الاجازات المتینہ لعلمابکۃ والمدینۃ:ص۲۲
میں اللہ کی قسم کھاکر کہتاہوں کہ اگر امام اعظم ان فتاویٰ کو دیکھتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیںاور ان فتاویٰ کے مؤلف کو اپنے تلامذہ میں شامل فرمالیتے۔
            
سید زکریا شاہ بنوری پیشاوری:
اگر اللہ تبارک وتعالیٰ ہندوستان میں احمدرضابریلوی کو پیدانہ فرماتاتوہندوستان میں حنفیت ختم ہوجاتی۔    [ امام احمد رضا کی فقہی بصیرت۔ص ۳۲]
تاج العلما حضرت محمد میاں مارہروی :
اعلیٰ حضرت کو میں علامہ ابن عابدین شامی پر فوقیت دیتاہوںکیوں کہ جو جامعیت اعلیٰ حضرت کے یہاں ہے وہ ابن عابدین شامی کے یہاں نہیں [ امام احمد رضا کی فقہی بصیرت۔ص ۳۲]
مولانا عبدالحی لکھنوی:
برع فی العلم وفاق اقرانہ فی کثیر من الفنون لاسیماالفقہ والاصول ۔یعنی بیشتر علوم وفنون میں خصوصافقہ اور اصول میں اپنے معاصرین پر فائق تھے  [نزھۃ الخواطر :جلد ۸]
اور جہاںتک بات آپ کے مجدد ہونے کی ہے تو اس سلسلہ میں بھی اگرچہ باضابطہ بہت کچھ نہیں لکھاگیا مگرامام احمدرضاسے متعلق تمام سوانحی کتابوں میںضمناًاس کا ذکر بار بار آیاہےاور اس موضو ع پراتنےمنتشر مضامین موجود ہیں کہ انہیں یکجا کردیاجائے توکئی کتابیںتیار ہوسکتی ہیں۔
آپ کے پہلے سوانح نگار حضور ملک العلماعلامہ شاہ ظفرالدین قادری علیہ الرحمہ نے حیات اعلیٰ حضرت جلد سوم میں مطبوعہ رضااکیڈمی ممبئی کے صفحہ ۱۲۳ سے ۱۵۹تک تفصیلی بحث کی ہے جو قابل مطالعہ ہے۔انہوں نے متنوع حوالوں سے امام احمد رضاکی مجددانہ شان کو آئینہ فرمادیا ہے۔ صاحبان ذوق اس کا مطالعہ کرسکتے ہیں میں یہاں ان کی اسی کتاب میں شامل حضور محدث اعظم ہند علامہ شاہ محمدصاحب اشرفی محدث کچھوچھوی علیہ الرحمہ والرضوان کے ایک مضمون کا ایک اقتباس پیش کرنا مناسب سمجھتاہوںکیوں کہ وہ خانقاہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف کے نامورعالم دین ،مایہ ناز محدث اورقابل فخرعارف وشیخ کامل تھے۔وہ مجدد کی تلاش میںتصوراتی طورپر علمائے عرب کے یہاں پہنچ گئے اور ان کی تحریروںمیں تلاش کرکے دکھادیا کہ علمائے حجاز کی نظر بھی امام احمد رضا چودہویں صدی کے مجددہیں۔مضمون کا انداز بڑادل چسپ ہے۔وہ اس مضمون میں لکھتے ہیں:
الحمد للہ کہ عرضی قبول ہوئی اور عقل سلیم کی طرف لے چلی،اور حرمین کریمین کے مفتیان کرام وائمہ حرمین عظام وجمیع علمائے اسلام کے قدموں پر ہمیں ڈال دیا ہم چپ ہیں صامت وساکت ہیںکہ تاب گویائی باقی نہیں ہے اتنا دیکھتے ہیں کہ ان علماکے دست اقدس میں کوئی معتمد ومستند رسالہ کوئی معتقدومنتقد(رسالہ اعلیٰحضرت) عجالہ ہے اور ان کے قلم وزبان کسی کی مداحی میں یوں زمزمہ سنج ہیں،مناقب علیہ کا اظہار ان لفظوں سے ہورہاہے:
اس کے بعد انہوں نے علمائے حجاز کی تحریر میں امام احمد رضاکے لئے استعمال کردہ القابات کی فہرست پیش کی ہے ،جس سے یہ آئینہ ہوتاہے کہ علمائے حرمین انہیں مرجع العلما اور مجدد وقت تسلیم کرتے ہیں۔ملاحظہ کریں:
عالم،علامہ کامل،استاذماہر،مجاہد،معزز،باریکیوں کا خزانہ،برگزیدہ ،گنجینہ،علوم کے مشکلات ظاہر وباطن کاکھولنے والا،دریائے فضائل،علمائے عمائد کی آنکھوں کی ٹھنڈک،امام وپیشوا،اعدائے اسلام کے لئے تیغ براں،ہمارا سردار،جلیل القدر،بحر ذخار،بحرناپیداکنار، ہمارامولا،منقبتوں اور فخروں والا،یکتائے زمانہ ،اپنے وقت کایگانہ،علمائے مکہ ان کے فضائل پر گواہ،اس صدی کا مجدد،ان کے کمال کا بیان طاقت سے باہر،حاوی جمیع علوم ،دین کا زندہ کرنے والا،وارث نبی ،سید العلما،مایہ افتخار علما،خلاصہ علمائے راسخین ،
قارئین خط کشیدہ القابات خاص طور سے ملاھظہ فرمائیںکہ یہ ہمارے ادعاپر دلیل واثق ہے۔ان مختصر حوالہ جات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ امام احمد رضا کی فقاہت اور ان کی شان تجدید مستند ومعتمد ہے۔اب ذرا ان کے تصوف ،عارفانہ مقام اور شان ولایت قطبیت کے حوالہ سے بھی عارفوں کے اقوال اور کاملین کے مشاہدات کا جلوہ دیکھ لیاجائے ۔
کسی بھی شخصیت کی معرفت کے لئے دوہی طریقے ہیں ایک یہ کہ ان کے ذاتی احوال معمولات ومشاغل اورکرداروگفتار وآثارکو ذریعہ بنایاجائے اور دوسرایہ کہ اس عہد کے عارفین وکاملین کے تاثر ات سے ان کی شخصیت کاعرفان حاصل کیاجائے۔یہ صورت زیادہ آسان اور فہم کے زیادہ قریب ہے ۔احوال وآثار کے لئے :
حیات اعلیٰ حضرت         ملک العلما علامہ ظفرالدین بہاری
سیرت اعلیٰ حضرت        مولانا حسنین رضاخان بریلی شریف
امام احمد رضااور تصوف        علامہ محمد احمد مصباحی
امام احمد رضااور عرفان تصوف    مولاناعیسی رضوی
کامطالعہ کیاجائے ۔اور دوسری صورت کے حوالہ سے چند شواہد ملاحظہ فرمائیں ان شاء اللہ یہ حقیقت آئینہ ہوجائے گی کہ امام احمد رضاامام الاصفیا ہیں ۔
 اعلیٰحضرت کی ولادت سن ۱۸۵۶ء میں ہوئی،بزرگوں کے معمولات کے مطابق جدامجد علامہ شاہ رضاعلی خان نے تعلیم کاآغاز کرایااورسن ۱۲۸۲ھ ؍۱۸۶۹میں جب کہ آپ کی عمر ۱۳؍سال دس ماہ پانچ دن کی تھی کہ آپ نےمدارس میں مروج جملہ علوم وفنون سے فراغت حاصل کرلی،اور اسی دن رضاعت سے متعلق پہلا فتویٰ ایسا لکھاکہ عمر بھر کے لئے والد گرامی خاتم المحققین علامہ شاہ نقی علی خاں علیہ الرحمہ نے قلمدان افتاآپ کے حوالہ کردیا۔فتویٰ نویسی کو تقریبانو سال ہوئے ہوںگے کہ سن  1295ھ1878ء میںوالد گرامی کے ساتھ حضرت تاج الفحول علامہ شاہ عبدالقادر بدایونی علیہ الرحمہ والرضوان کے ہمراہ خاتم الاکابر حضور سیدنا شاہ آل رسول احمدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میںوالد گرامی کے ساتھ مارہرہ مطہرہ تشریف لے گئے اس وقت آپ کی عمر  ۲۲؍سال کی تھی۔حضرت مرشد گرامی نے بیعت کے بعد بغیر کسی ریاضت کے اجازت وخلافت سے سرفراز فرمایا۔اس خلاف معمول بیعت وخلافت پرحضور سیدی سرکار ابوالحسین نوری علیہ الرحمہ والرضوان کی طرف سے عرضی پیش ہوئی کہ حضور اپنے یہاں تو طویل عرصہ تک بامشقت مجاہدات وریاضات کے بعد خلافت دی جاتی ہے توپھر اس کی کیاوجہ ہے کہ ان دونوں حضرات کو بیعت کرتے ہی خلافت دے دی گئی؟تو حضرت نے ارشاد فرمایا’’میاں صاحب! اور لوگ زنگ آلودمیلا کچیلادل لے کر آتے ہیںاس کی صفائی اور پاکیزگی کے لئے مجاہدات طویلہ کی ضرورت پڑتی ہے ،یہ دونوں حضرات صاف ستھرادل لے کر ہمارے پاس آئے ،ان کو صرف اتصال سند کی ضرورت تھی اور مرید ہوتے ہی پوری ہوگئی۔
جو حضرات اعلیٰ حضرت کو محض مولانا احمد رضاکہنے پرمصرہیں اور انہیں صوفی ولی مرشد ماننے اور کہنے میں کسی قلبی آزار کااحساس ہوتاہے انہیں حضور خاتم الاکابر کے مذکورہ جملے سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔
سرکا ر شاہ ابوالحسین احمد نوری میاں علیہ الرحمہ والرضوان خانوادہ مارہرہ کے بزرگ اور اعلیٰ حضرت قبلہ کے استاذ بھی ہیں حضور خاتم الاکابر نےامام احمد ر ضاکوتربیت کے لئے آپ ہی کے حوالہ کیاتھا ،انہوں نے اپنے اس تلمیذ رشید کوکیساپایا،وہ ان کی تحریروں میں آج بھی موجود ہے آپ نے ’’چشم وچراغ خاندان برکاتیہ ‘‘کا خطاب بڑی محبت سے آپ کے نام کیااور انکساراًفرمایا’’میں اپنے سے زیادہ آپ کو اس کا اہل پاتاہوں ‘‘یہ فرمان صرف امام احمد رضاکی عظمت کے عرفان کے لئے تھاتاکہ لوگ انہیں صرف مولانا نہ سمجھیں یہ معرفت وطریقت کے بھی بحر ذخار ہیں۔کیاان شواہدکے بعد بھی ذہن سلیم اور عقل انصاف پسندامام احمد رضا کو عالم وفقیہہ کے ساتھ عارف وصوفی اور ولی کامل ماننے میں تردد کرےگا؟
امام احمد رضابزرگوں کی بارگاہوںکے ادب شناس تھے اور ان کی بارگاہوں میں حاضری کو سعادت سمجھتے تھے۔ایک بارعین جوانی کے عالم میں آپ گنج مرادآباد حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مراد آبادی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔شاہ صاحب نے کمال محبت وشفقت سے آپ کو اپنا مہمان بنایاجب جانے لگے تو شاہ صاحب نے فرمایاجی چاہتاہے کہ اپنی ٹوپی آپ کو اڑھاؤں اور آپ کی ٹوپی اپنے سر پہ رکھ لوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرمائیے !آخر ایک نوجوان میں حضرت شاہ صاحب نے کیا دیکھاکہ ان کی ٹوپی اپنے سر پہ رکھی؟عارف کو پہچاننے کے لئے عارف ہونا پڑتاہے ۔جو لوگ کسی خاص نظریہ سے امام احمد رضاکو دیکھتے ہیں وہ دراصل اپنی پہچان چھوڑتے ہیں ورنہ کامل تو کامل کو پہنچان ہی لیتاہے،یہی وجہ ہے کہ اپنے پہلے سفر حج میں جب آپ حرم شریف میںمغرب کی نماز پڑھ کر نکل رہے تھےامام شافعیہ  شیخ حسین صالح علیہ الرحمہ والرضوان : (م 1302ھ 1884ء )بغیر کسی سابقہ تعارف کے امام احمد رضاکا ہاتھ پکڑ کر  اپنے ساتھ گھر لےگئےاور فرط محبت سے دیر تک آپ کی نورانی پیشانی دیکھتے رہنے کے بعد جوش عقیدت میں فرمایا:
    انی لاجد نوراللہ من ھذاالجبین(۲) بے شک میں اس پیشانی میں اللہ کا نور محسوس کر رہا ہوں
واقعہ کے راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت شیخ حسین بن صالح موصوف نے اسی ملاقات میں آپ کو صحاح ستہ کی سند اور سلسلہ قادریہ کی اجازت اپنے دستخط خاص سے عنایت فرمائی اور آپ کا نام ضیاء الدین احمد رکھا۔
بتایا جائے یہ کون سی نگاہ تھی جس نے بغیر کسی سابقہ ملاقات وتعارف کےانی لاجد نوراللہ من ھذاالجبین کہلوایا۔یقینا یہ وہی کاملین کی نگاہ ہے جو فانہ ینظر بنوراللہ کی حامل ہوتی ہے اورکاملین کو پہچان لیتی ہے   ------------یہ ایک تاثر نہیں علمائے حرمین کے تمام تاثرات میں امام احمد رضاکے علمی جاہ وجلال کے ساتھ ان کے باطنی کمالات کا بھی خوب خوب بیان ملتاہے چند تاثرات سے یہ حقیقت اور بھی روشن ہوگی ملاحطہ فرمائیے
شیخ اسمعیل بن سید خلیل حافظ کتب الحرام علیہ الرحمہ:مکہ لکھتے ہیں:
     میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے عالم باعمل عالم فاضل صاحب مناقب ومفاخر جسکو دیکھ دیکھ کر یہ کہا جائے کہ "اگلے پچھلوں کے لیے بہت کچھ چھوڑ گئے" یکتائے روزگار وحید عصر مولینا شاہ احمد رضا خان کو مقرر فرمایا کیوں ایسا نہ ہو کہ علماء مکہ معظمہ اس کے لئے ان فضائل کی گواہی دے رہے ہیں اگر وہ اس مقام رفیع پرمتمکن نہ ہوتا تو علمائے مکہ معظمہ اس کے لئے یہ گواہی نہ دیتے ہاں ہاں میں کہتا ہوں کہ اگر اس کے حق میں یہ کہا جائے کہ وہ اس صدی کا مجدد ہے تو حق و صحیح ہے۔ (حسام الحرمین،ص140و142)
شیخ علی بن حسین مالکی علیہ الرحمہ،مدرس مسجدالحرام۔مکہ مکرمہ اسی کتاب کے صفحہ۱۵۸ میںرقم طراز ہیں 
    جب اللہ تعالی نے مجھ پر احسان فرمایا اور آسمان صفا کے آفتاب عرفان کی روشنی سے میرے قلب کو منور فرما یا ۔ آج وہ دائرہ معارف کا مرکز ہے(اس کا وجود مسعود)ملت اسلامیہ کے گھر میں آسمان علم و عرفان کے جھلملاتے تاروں کا مطلع ہے وہ مسلمانوں کا یارومددگار ہے ہدایت یابوں کا نگہبان و نگران(کون؟) ہمارے آقا احمد رضا خان۔
شیخ کریم اللہ مھاجر مدنی،کا بھی تاثر ملاحظہ کریںوہ اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں:
    میں کئی سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہوں ہندوستان سے ہزاروں صاحب علم آتے ہیں ان میں علماء صلحاء اوراتقیا سب ہی ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ وہ شہر کے گلی کوچوں میں مارے مارے پھرتے ہیں کوئی بھی ان کومرکر نہیں دیکھتا لیکن (فاضل بریلوی کی عجیب شان ہے) یہاں کے علماء اور بزرگ سب ہی ان کی طرف جوق در جوق چلے آرہے ہیں اور ان کی تعظیم و تکریم میں سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اللہ تعالی کا فضل خاص ہے جسے چاہتا ہے نواز تا ہے۔(حامد رضاخان:الاجازات المتینۃ ص 7)
شیخ عبدالرحمان دھان مکی،امام احمد رضاکو حسام الحرمین ص176میں اپنی جائے پناہ قرار دیتے ہیں:
    وہ جس کے متعلق مکہ معظمہ کے علمائے کرام گواہی دے رہے ہیں کہ وہ سرداروں میں یکتا و یگانہ ہے امام وقت میرے سردار، میری جائے پناہ حضرت احمد رضا خان بریلوی اللہ تعالی ۔اللہ تعالیٰ مجھے اس کی روش نصیب کرے کہ  اس کی روش سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی روش ہے
شیخ محمد سعید بن محمد یمانی علیہ الرحمہ،مدرس مسجد حرام،مکہ معظمہ :تو امام احمد رضا کو اسلاف کی یادگار زاہدوں اور کاملوں میں یکتاومنفرد سمجھتے ہیں۔اسی کتاب کے صفحہ ۱۹۲ پر ہے:
    بیشک یہ اللہ کی ان عظیم نعمتوں میں سے ہے جس کا شکر ادا کرنے سے ہم عاجز و قاصر ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت امام دریائے بلند ہمت، تمام عالم کے لئے برکت و رحمت، یادگارسلف، زاہدوں اور کاملوں میں یکتا و یگانہ یعنی احمد رضا خان(کوبھیجا)
آخر میںحضرت محدث اعظم ہند علیہ الرحمہ والرضوان کے اسی مضمون( مشمولہ حیات اعلیٰ حضرت جلد ۳)میں علمائے حجاز کی زبان وقلم سے امام احمد رضاکی ولایت صحیحہ کی تصدیق کے حوالہ سے ان کے القابات بھی دیکھ لیںکہ علمائے حر مین تصوف ومعرفت میں امام احمد رضاکو کس پایہ کا سمجھتے ہیں۔وہ یوں شمار کراتے ہیں 
آفتاب معرفت،کثیر الاحسان ،کریم النفس،دریائے معارف ،مستحبات وسنن وواجبات وفرائض پر محافظ،محمود سیرت،صاحب عدل ،عالم باعمل ،نادر روزگار ،خلاصہ لیل ونہار،اللہ کا خاص بندہ،عابد،دنیاسے بے رغبتی والا،عرفان ومعرفت والا۔
یہ ان شخصیات کے تاثرات ہیں جو خود نادر روزگار،یادگار سلف اور مایہ افتخار ہیں۔ان کے تاثرات استنادی حیثیتوں کے حامل ہیںجن سے امام احمد رضاکا عارفانہ کمال آئینہ ہوکر ہمارے سامنے آتاہے۔آخر میں یہاں دنیائے تصوف کی ایک معروف شخصیت درگاہ سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاکے صاحب سجادہ محترم خواجہ حسن نظامی کے ایک بے باکہ تاثر کو نقل کرنا مناسب معلوم ہوتاہے تاکہ خانقاہی دنیا پر یہ منکشف ہوسکے کہ سلسلہ چشتیہ کے ایک باوزن اور معروف صاحب سجادہ نے امام احمد رضاکوکن آنکھوں سے دیکھااور دنیا کو کیا سمجھایا ۔وہ اپنے ایک تحریر میں لکھتے ہیں:
’’بریلی کے مولانا احمد رضاخاں صاحب جن کو ان کے معتقد مجد ومائۃ حاضرہ کہتے ہیں درحقیقت طبقہ صوفیائے کرام میں بہ اعتبار علمی حیثیت کے منصب مجددکے مستحق ہیں انہوں نے ان مسائل اختلافی پرمعرکہ کی کتابیں لکھی ہیں جو سالہا سال سے فرقہ، وہابیہ کے زیر تحریروتقریر تھیں اور جن کے جوابات گروہ صوفیہ کی طرف سے کافی وشافی نہیں دیئے گئے تھے۔ ان کی تصنیفات وتالیفات کی ایک خاص شان اور خاص وضع ہے۔ یہ کتابیں بہت زیادہ تعداد میں ہیں اور ایسی مدلل ہیں جن کو دیکھ کر لکھنے والے کے تبحر علمی کا جید سے جید مخالف کو اقرار کرنا پڑتا ہے ۔ مولانا احمد رضاخان صاحب جو کہتے ہیں ، وہی کرتے ہیںاور یہ ایک ایسی خصلت ہے جس کی ہم سب کو پیروی کرنی چاہئے۔ان کے مخالف اعتراض کرتے ہیں کہ مولانا کی تحریروں میں سختی بہت ہے اوروہ بہت جلد ی دوسروں پر کفر کا فتویٰ لگا دیتے ہیں مگر شاید ان لوگوں نے مولانااسماعیل شہید اور ان کے حواریوں کی دل آزار کتابیں نہیں پڑھیں جن کو سالہا سال صوفیائے کرام برداشت کرتے رہے۔ان کتابوں میں جیسی سخت کلامی برتی گئی ہے اس کے مقابلہ میں جہاں تک میرا خیال ہے مولانا احمد رضاخاں صاحب نے اب تک بہت کم لکھا ہے۔ جماعت صوفیا علمی حیثیت سے مولانا موصوف کو اپنا بہادر صف شکن سیف اللہ سمجھتی ہے اور انصاف یہ ہے کہ بالکل جائز سمجھتی ہے۔‘‘
امام احمد رضااور شاہ خواجہ حسن نظامی کے درمیان سجدہ تحیت کے جوازوعدم جواز پر شدید علمی اختلافات بھی تھے مگر اس کے باوجود انہوں نے ’’ طبقہ صوفیائے کرام میں منصب مجددکے مستحق ‘‘فرمایا۔اس سے صوفیہ کی حق گوئی اور امام احمد رضاکی عظمت دونوں کا اظہار ہوتاہے۔صوفیہ اپنے دل میں کسی کے لئے منفی جذبہ نہیں رکھتے ان کی صاف دلی صاف گوئی کا ذریعہ ہوتی ہے اور یہی ہونابھی چاہئے ۔آج بھی اگر یہ صوفیہ کا یہی منہج رائج ہوجائے تو علماوصوفیہ کے درمیان کی کھائیاں پٹ جائیں اور صوفیہ کے درمیان فروغ پانے والے تناقض کا خاتمہ ہوجائے۔
 امام احمد رضاعلماوصوفیہ کے مقبول ومحمود تھےیہی وجہ ہے کہ انہیںایک دو نہیں۱۳؍ سلاسل طریقت میں اجازت و خلافت حاصل تھی،یہ کثرت طر ق ان کی عظمت دال اور صاحب فضل وکمال ہونے کی بین دلیل ہےجامع حالات حضرت ملک العلمانے اس کی تفصیل’’ حیات اعلیٰ حضرت جلد سوم ‘‘میںمیں دی ہے اجمال یہ ہے:
(۱) قادریہ برکاتیہ جدیدہ (۲)قادریہ آبائیہ قدیمہ ( ۳)قادریہ اھدلیہ(۴)قادریہ رزاقیہ (۵)قادریہ منوریہ (۶)چشتیہ نظامیہ قدیمہ(۷) چشتیہ محبوبیہ جدیدہ(۸) سہروردیہ واحدیہ(۹)سہروردیہ فضیلہ(۱۰) نقشبندیہ علاییہ صدیقیہ(۱۱) نقشبندیہ علائیہ علویہ(۱۲)بدیعیہ(۱۳)علویہ منامیہ وغیرہ وغیرہ۔
ان سلاسل کے علاوہ امام احمد رضاکو:(۱)مصافحۃ الجنیہ(۲) مصافحۃ الخضریہ(۳)مصافحۃ المعمریہ( ۴)مصافحۃ المنامیہ
 کی سندات بھی حاصل تھیںجو ان کی کاملیت کی دلیل ہے ۔اب اس کے بعد بھی کوئی بضدہوکہ وہ مولانا ہے صوفی نہیں تو ’’بریں عقل ودانش بباید گریست‘‘کے علاوہ کیاکہاجائے۔
امام احمد رضاکے خلفائے بہار
امام احمد رضا مرجع علما ،مرکزانام ،منبع فضائل اور مجموعہ خصائل تھے،یہی وجہ تھی کہ اپنے وقت کے جید وسید علما بھی آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور برکت کے لئےاجازت وخلافت حاصل کی ۔آپ کے پہلے سفر حج میں علمائے حرمین کس طرح آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور اجازت وخلافت طلب فرمائی ،اس کا اندازہ الاجازات المتینہ لعلماء بکۃ والمدینہ کے مطالعہ سے عیاں ہوگااور اس کتاب کو عنوان بناکر ماہررضویات محترم ڈاکٹر مسعود احمد مظہری علیہ الرحمہ کی لکھی ہوئی کتاب ’’فاضل بریلوی اور علمائے حجاز ‘‘ سےا س کی تفصیل معلوم ہوگی۔آپ کے غیر منقسم ہندوستان کے خلفاکی تعداد ۹۲ ہے۔یہ سارے خلفا علم عمل خشیت زہد تقویٰ کے ہر اعتبار سے ممتاز اور معروف ہیں ۔
بہار سےا مام احمد رضا کاتعلق کئی جہتوں سے ہے جو ایمان افروز بھی ہے اورتفصیل کا متقاضی بھی ۔امام احمدرضا تقریبا تین بار بہار تشریف لائے اور ہر بار کے سفر نے ایک نئی تاریخ مرتب کی ۔اس موضوع پر ایک کتاب ’’امام احمد رضااور بہار‘‘زیرترتیب ہے ان شاءاللہ اس سے پورے احوال، اس دور کے حالات اور مشائخ بہار سے امام احمد رضاکے پاکیزہ تعلقات سامنے آئیں گے ۔ایک کتاب ’’دربار حق وہدایت‘‘ مرتبہ خلیفہ اعلیٰ حضرت مولانا قاضی عبدالوحید فردوسی علیہ الرحمہ منظر عام پہ اسی عرس رضوی(۲۰۲۲ء) میں آرہی ہے۔ اس کے مقدمہ میں اس کی تھوڑی تفصیل بیان کردی گئی ہے جو افادہ سے خالی نہیں ۔یہاں ضمناامام احمد رضا کے بہار کے خلفاکے اسماملاحظہ کریں اور ان کی تفصیل مولانا شاہدالقادری کی کتاب ’’تجلیات خلفائے امام احمد رضامیں ملاحظہ کریں:
ملک العلما علامہ شاہ مفتی ظفر الدین قادری رضوی بہاری ،حضرت علامہ شاہ سید سلیمان اشرف بہاری، علامہ سید عبد الرشید عظیم آبادی،حضرت مولاناقاضی عبدالوحید عظیم آبادی ،حضرت علامہ سید عبد الرحمٰن بیتھوی،حضرت علامہ خلیل الرحمٰن بہاری، حضرت مفتی رحیم بخش آروی،حضرت مفتی رحیم بخش مظفرپوری ،
یہ ساری وہ شخصیات ہیں جو اپنے وقت کی آفتاب وماہتاب ہیں مگر باں قدر ومنزلت یہ حضرات امام احمد رضاسے بھی اجازت وخلافت سے مشرف ہوئے یہ باتیں دل بینا کے لئے چشم کشاہیں اور ساحل سمندر کھڑے افراد کے لئے دعوت رغبت ومحبت۔
حاصل کلام :
امام احمد رضا:امام الاصفیا کے حوالہ سے چند جملوں میں جو حقائق پیش کئے گئے ہیں ان سے یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ امام احمدرضا شریعت وطریقت کے جامع اوربحر حقیقت ومعرفت کے غواص ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی بارگاہ میں رہنے والے حضرات اور ان کی صحبت کے چند لمحات پانے والے اولیائے کاملین بھی انہیں :
آفتاب معرفت،دریائے معارف، ،مستحبات وسنن وواجبات وفرائض پر محافظ،عالم باعمل ،نادر روزگار ،اللہ کا خاص بندہ،دنیاسے بے رغبتی والا،عرفان ومعرفت والا
سمجھتے ہیں ۔اب اس کے بعد یہ کہنے کی ضرروت نہیںجب اتقواعن فراسۃ المومن کے حامل بزرگ امام احمد رضاکو ان نگاہوں سے دیکھتے ہیں تو صاحبان دعویٰ بصیرت کو بھی امام احمد رضاکو کن نگاہوں سے دیکھنا چاہئے۔