مولد النبی ﷺ کی شرعی اور تاریخی حیثیت
ڈاکٹرامجد رضا امجد: قاضیِ شریعت ادارئہ شرعیہ پٹنہ
عرب کی سرزمین دنیا بھر کے مسلمانون کے لئے مرکز عقیدت ہے کہ یہیں خدا کا پہلا وہ گھر ہے جو مسلمانوں کا قبلہ ہے ، یہیں وہ یادگا ر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت خلیل اللہ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کی تھی ، اسی سرزمین پربئرزم زم بھی ہے جس کو حضرت اسما عیل کے قدموں سے نسبت ہے ، اسی سر زمین پر صفا و مروہ کی دوپہاڑیاں بھی ہیں جنہیں حضرت ہاجر ہ کے قدموں نے رفعت بخش دی ہے ، اسی کی گود میں مقدس پہاڑ ’’جبل نور‘‘ بھی ہے جس کے ’’غار حرا ‘‘ کو سر کار ﷺنے اپنا عبادت خانہ بنا کر محترم بنا دیا ہے اور جسے نزول قرآن کی اولیت کا شرف حاصل ہے ، منیٰ وعرفات و مژدلفہ بھی یہیں ہیں جہا ں ہر سال حجاج کرام حاضر ہوتے ہیں اور سعادتوں کی خیرات لے کر واپس لوٹتے ہیں۔حدیبیہ کی پاکیزہ وادی بھی یہیں آباد ہے جہاں صحابہ کرام نے خون وفا سے عشق کی داستان لکھی تھی ۔ہجرت کے سفر کا پہلا پڑاؤ ’’غار ثور ‘‘ بھی حجاج کو یہیں رحمت وبرکت سے مالامال کرتا نظر آتا ہے ۔صحابہ وصحابیات اور اُمیـ المومنین حضرت خدیجہ کی آخری آرام گاہ’’جنت المعلی‘‘حضرت عمر کے ایمان لانے کی جگہ دارارقم،حضرت خبیب کے مصلوب ہونے کی جگہ ’’ مسجد تنعیم‘‘امّ المومنین حضرت میمونہ کا مدفن’’ مسجد سرف‘‘اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تین سالہ قید وبند کی جگہ ’’شعب ابی طالب ‘‘ بھی اسی سرزمین کی آغوش میں آباد ہے ،جن کی فضاؤں میں انوار الٰہی کے چراغ مسکراتے ہیں اور جن کی زیارت سے عشق وایمان کو جلاملتی ہے۔
انہیں پاکیزہ اور مقدس مقامات کے درمیان خانہ کعبہ کے مشرق اور جبل ا بی قبیس کے نیچے وہ مقدس مقام بھی ہے جسے تاریخ اسلام میں’’ مولد النبی‘‘ﷺ کا نام دیا گیا ہے۔جہاں اللہ کے محبوب سرور کون ومکاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ورود مسعود ہوا ،جہاں حضرت مریم اور حضرت آسیہ جلوہ گرہوئیں ،جہاں فرشتوں کا نوارانی قافلہ اترا اور حضور اقدس ﷺ نے جہاں پیدا ہوتے ہی سجدہ میں سررکھ کر امت کے لئے دعا فرمائی۔
’’مولد النّبی ‘‘ کو اہل ایمان اور اہل محبت نے ہمیشہ عظمت وحرمت کی نگاہوں سے دیکھا اور وہاں کی حاضری کو سعادت سمجھ کر اس کو محفوظ کرکے ایمان والوں کے لئے زیارت گاہ بنادیا ----------صدیوں تک لوگ اس کی زیارت سے مشرف ہوتے رہے مگر ۸؍محرم ۱۲۱۸ھ کو جب سعود بن عبد العزیز کا مکہ معظمہ پر قبضہ ہوا تو وہ گنبد گرا دیا گیا جسے مسلمانوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت ابوبکر صدیقﷺکی جائے ولادت پر تعمیر کیا تھا۔مورخ سید شریف اپنی کتاب ’’ خوارج قرن الثانی عشر‘‘میں لکھتے ہیں:۔
فھدموا جمیع مافی المعلی من آثار الصالحین وکانت کثیر ۃثم ھدمو ا قبۃ مو لد النبی ﷺ
ثم قبۃمو لد ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالی عنہ -------
یہ ۱۲۱۸ھ کی بات تھی اس سے پہلے امت کے فقہا محدثین اولیا ء کاملین اور عامۃ المسلمین اس با برکت مقام پر بصد شوق ونیاز ہوتے رہے ، وہاں پر نمازیں پڑھی جا تی رہیں، محافل کا انعقاد ہوتا رہا اور قلب ونظر میں اس کی زیارت سے نور بھرے جاتے رہے-----------مشہور محدث حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی اپنی کتاب ’’فیوض الحرمین ‘‘ میںفرماتے ہیں
میں ایک مرتبہ اس محفل میلاد پاک میںحاضر ہوا جو مکہ مکرمہ میں بار ہویں ربیع الاول کومو لد النبی ﷺمیں منعقد ہوئی تھی ۔ جس وقت مو لدالنبی ﷺپر ولادت پاک کا ذکر پڑھا جا رہا تھا، تو میں نے دیکھا کہ اس محفل پاک سے انوار بلند ہورہے ہیں ۔میںنے غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ رحمت الہی اور ان فرشتوں کے انوار تھے جو ایسی محفلوں میں ہر جگہ حاضر ہوا کرتے ہیں (فیض الحرمین)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمہ والرضوان کی دینی عظمت ،محدثانہ جلال وجما ل اور مقام ولایت کا زمانہ معترف ہے ۔مولدالنبی ﷺ کے تعلق سے ان کے یہ تاثرات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کا فی ہیں۔ آج اہل حدیث اور خود کو سلفی کہنے والے حضرات شاہ صاحب کو مسلکااپنا ثابت کرنے کے لئے جد و جہد میں مصروف ہیں مگر اس کے با وجود حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے معتقدات اور ان کے معمولات کا انکا ر بڑا عجیب معلوم ہوتا ہے ۔
حضرت شاہ ولی اللہ سے پہلے چھٹی صدی ہجری کے ایک بزرگ اور صاحب بصیرت مو رخ علامہ’’ ابن جبیر ا ندلسی‘‘ کی مشہور ومعتمد کتابـــ’’سفرنامہ ابن جبیر‘‘ بھی مولدالنبی ﷺ کے تعلق سے ہماری رہنمائی کرتی ہے۔علامہ ابن جبیر مولدالنبی ﷺکی زیارت کاذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
تیرہویں تاریخ پیر کے دن ہم مولدالنبی ﷺ کی زیارت کو حاضر ہوئے،اس جگہ ایک مسجد بنی ہوئی ہے، حضور علیہ السلام کی پیدائش کا مقام حوض کی طرح تین بالشت چوڑا،اس کے بیچ میںایک سبز پتھر دوثلث بالشت کی قدرچاندی کے حلقہ میں جڑا ہوا ہے۔اس پتھر پرحصول برکت کے لئے ھم نے اپنا منھ رگڑا ،اور اس مقام مقدس کی زیارت سے شرف واعزاز حاصل کیا،یہ جگہ کعبہ شریف کے شرق میں جبل ابی قبیس کے نیچے واقع ہے۔
محبت کرنے والے محبوب سے منسوب چیزوں کا احترام کس طرح کرتے ہیں علامہ جبیر کی تحریر سے ظاہر ہے۔جن کے دلوں میں رب کے محبوب کی محبت نہیں ،وہ اس رازکو کیا سمجھ سکیں کہ محبت کیا ہے اور نسبت کی اہمیت کیاہے ع عشق کاریست کہ موقوفِ ہدایت باشد
نسبتوں کا احترام توہمیں قرآن نے سکھایا ہے۔اور کئی یک مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے تاکہ ہمارے دلوں میں نسبتوں کی اہمیت بیٹھ جائے ---------۔ہمیں قرآن ہی نے بتایا کہ جبریل علیہ السلام کے سموں سے مس ہوئی مٹی تریاق و اکسیر بن گئی(سورۂ طٰہ)حضرت یوسف علیہ السلام کے جسم سے مس ہوئی قمیص کو حضرت یعقوب کے چہرے پر ڈالا گیا تو آنکھوں میںروشنی آگئی(سورۂ یو سف) حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کواللہ تعالیٰ نے’’ناقۃاللہ‘‘قرار دیا(سورۂ اعراف وشعراء)اونٹنی توپاک جانور ہے ،قرآن نے اصحاب کہف سے نسبت کے سبب کتے کا بھی ذکر فرمایا(سورہ ٔکہف)اندازہ لگائیں کس کس انداز سے نسبتوں کا ذکر کیا گیا ہے اور پھر سوچیں کہ جب محبوب کے ما سواکا ذکر اس انداز سے ہے تو خودمحبوب پاک ﷺکاذکر کس انداز سے ہوگا
ع ایں نکتہ راشنا سد آں دل کہ درد منداست
مو لد النبی ﷺ ہویا اور دیگر مقامات مقد سہ اگر ان کی نسبت ہمارے نبی سے جڑی ہے تو ہمارے لئے دونوں جہاں میں ان سے زیادہ قیمتی کوئی اور شے نہیں۔ یہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہے اور یہی صحابہ کرام کی تعلیم ہے، صحابہ کرام سے زیادہ دین کا آشنا نہ کوئی ہو ا ہے اور نہ ہوسکتا ہے انہوں نے حضور ﷺ سے محبت کا جو انداز پیش کیا ہے وہی حق ہے اور ہم اسی کے پیر و کا ر ہیں ۔صحابہ نے اپنے دین کو عشق رسول کی بنیاد پر قائم کیا تھا اس لئے وہ محبوب کی ادائوں کو محفوظ کرتے تھے ، اور محبوب سے منسوب چیزوں پر پروانہ وار نثا ر ہوتے تھے۔ یہ محبوب سے نسبت کا احترام ہی تھا کہ حضرت عمر نے سنگ اسود کی بوسہ دیتے ہوئے فرمایا ’’میں تجھے کبھی نہ چومتا اگر حضو ر ﷺنے نہ چوما ہوتا (بخاری شریف)یہ نسبت ہی کی کرامت تھی کہ صحابہ کرام ،حضو ر ﷺکے وضو کے بچے ہوئے پانی پر ٹوٹے پڑتے اور اس پانی کو اپنے چہرے پر مل لیتے ۔(بخاری ومسلم)یہ نسبت ہی کی کرشمہ سازی تھی کہ صحابہ کرام، حضور ﷺ کے موئے مبارک کو انمول نعمت کی طرح سجا کر رکھتے اور ازواج مطہرات آپس میں اسے تقسیم کرتیں ۔(معارج النبوۃ)نسبت ہی کے جذبہ نے حضرت عبیدہ سے کہلوا یا کہ میرے پاس حضور علیہ السلام کا ایک موئے مبارک ہونا دنیا و ما فیہا سے زیادہ محبوب ہے ۔(بخاری شریف )یہ بھی نسبت ہی کے پاکیزہ جذبہ کا اظہار تھا کہ حضرت امیر معاویہ نے حضور ﷺکے موئے مبارک اور تراشۂ ناخن کو اپنے گلے ،منھ اور سجدہ کی جگہ پر رکھنے کی وصیت کی (مرقاۃشرح مشکاۃ)اور محبت کا یہ انداز بھی حضرت عبد اللہ بن عمر کو نسبت ہی نے عطاکیا تھا کہ وہ مسجد نبوی کے منبر شریف کو ہا تھوں سے مس کرکے اپنے چہرے پر پھیر لیتے کہ یہ حضور ﷺ کی نشت گا ہ رہی ہے ۔
بتا یا جائے کہ صحابہ کرام کی ان ادائوں کے پس پشت کون سا جذبہ کا ر فرما تھا ۔ کیا قرآن پاک نے ایساکرنے کے لئے کہا ہے؟ حضور علیہ السلام نے ایسا کر نے کی تعلیم دی تھی ؟یا صحابہ کرام نے محبتوں کے اس انداز کے جو از پرا جماع کیا تھا ۔تاریخ اسلام میں اس کا جواب سوا ئے خاموشی کے اور کچھ نہ ملے گا مگر عشق جواب دیگا کہ صحابہ کا یہ کردار ان کے ایمانی جذبہ کا اظہار تھا اورہمارے لئے صحابہ کرام کے یہی افعال و کردار حجت ہیں کہ حضور ﷺنے ان کے بارے میں فرما دیا ہے الصحابی کا نجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتھم میرے صحابہ ستاروں کی ما نندہیں تم ان میں سے جن کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پائوگے ۔(مشکوۃشریف )نسبتوں کے احترام میں صحابہ کرام کے ایمان افروز اعمال و افعال کے بعدخاص مولدالنبی ﷺکے تعلق سے حدیث پاک کی مشہور کتاب نسائی شریف کتاب الصلوۃ صفحہ۴۷کی یہ حدیث ملاحظہ کریں حضرت انس بن ما لک رضی اللہ تعالی عنہ روا یت کر تے ہیں :
ان رسول اللہ ﷺقال اوتیت بدابۃ فرکبت و معی جبریل علیہ السلام فسرت فقال ا نزل فصل فصلیت فقال اتد ری این صلیت، صلیبت بطیۃو الیھا المہاجرثم قال انزل فصل فصلیت فقال اتدری این صلیت صلیت بطور سیناحیث کلم اللہ موسی علیہ السلام ثم قال انزل فصل فصلیت فقال اتدری این صلیت صلیت بیت لحم حیث ولد عیسی علیہ السلام الخ(نسائی ،کتاب الصلوۃصفحہ۴۷)
حضو ر علیہ السلام فر ما تے ہیں جبریل امین ایک سواری لے کرآئے، میں اس پر سوار ہو ا، پھر ہمارا سفر شروع ہوا ایک مقام پر جبریل نے مجھ سے عرض کیا اس مقام پر نما ز پڑھئے میں نے نماز پڑھی، جبریل نے بتا یا کہ یہ طیبہ ہے جہا ںمسلمان ہجرت کر کے جائیں گے۔ سفر کے دوسرے مقام پر جبریل نے پھر عرض کیا حضو ر یہاں بھی نماز پڑھ لیجئے یہ مقام طور سینا ہے ،جہا ں حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے گفتگو کی تھی، میں نے وہاںنماز پڑھ لی ۔سفر کے تیسرے مقام پر جبریل نے پھر عرض کیا حضور یہا ں بھی نماز پڑھ لیں یہ مقا م’’ بیت اللحم‘‘ ہے ، جہان حضرت عیسی علیہ السلا م پیدا ہوئے ۔حضور علیہ السلام فرماتے ہیںمیں نے اس مقام پر نماز پڑھی ۔
مسلسل تین مقامات پر حضور علیہ السلام نے نمازپڑھیں (۱)مدینہ پاک(۲)طورسینا (۳)اور بیت اللحم ۔روایت میں بیان کردہ تینوں جگہوں کو انبیاء کرام سے نسبت ہے اور اسی نسبت کی وجہ سے وہاں نماز پڑھواگئی ۔روایت کا انداز بتارہا ہے یہ کہ واقعہ اتفاقی نہیں ہے بلکہ با لا را دہ وبالا لتزام و ہاں نماز پڑھو ا ئی گئی، اسی لئے اس جگہ کی اہمیت کا سبب بھی بتایا گیا کہ پہلی جگہ کو خود آپ اور آپ کے صحابہ سے نسبت ہے ۔دوسری جگہ کو حضرت مو سی علیہ السلام سے نسبت ہے اورتیسری جگہ کو حضرت عیسی علیہ السلام سے--------- حضو ر علیہ السلام نے حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے ولادت پر نماز پڑھ کر ہمارے لئے دلیل فراہم کر دی ہے کہ ہم بھی ان کے ’’مولد شریف‘‘ کا احترام و اکرام کریں،اس کی زیارت کریں ،وہاں نمازیں پڑھیں ----------یہاں ہماری عقل کی یہ خلش بھی بے بنیاد ہے کہ حضور ﷺ نے ہمیں اپنے مولد شریف کی تعظیم اور اس کی حفاظت کا حکم نہیں دیا ہے ،کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی کسی کو اپنے مو لد پر نماز پڑھنے کے لئے نہیں کہا تھا مگر جبریل امین نے اس مقام کی نشاندہی کی اورحضو علیہ السلا م نے و ہا ںنماز پڑھی ۔مولد النبی ﷺ پر نمازیں پڑھنے اوراس کی زیارت کرنے کے لئے اب مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔حضورﷺ نے بیت الحم میں نماز پڑھ کر ہمیں اپنی جا ئے پیدا ئش پرنمازپڑھنے کااشارہ دے دیا ۔
ع ہمیں ہے حکم اذاں لاالہ الااللہ
ایمان کی بات یہ ہے کہ مولد النبی ﷺ کو بھی صحابہ کرام کے عشق کی نگاہو ں سے دیکھنے کی ضرورت ہے ، یہ کسی اور کی نہیں سرورکونین ،سردار انبیا ء اور رب کے محبوب ﷺ کی جا ئے ولادت ہے۔ اورجب حضرت عیسی روح اللہ علیہ السلام کی جا ئے ولادت عبا دت گا ہ بن سکتی ہے ۔ تو اس نبی کی جائے پیدائش عبادت گا ہ و زیارت گا ہ کیوںنہیں رہ سکتی جن کی آمد کی بشارت دینے کے لئے حضرت عیسی جلوہ گرہوئے تھے ۔
ع ایں نکتہ راشنا سد آں دل کہ درد منداست
تاریخ اسلام کا مطالعہ کر نے والوں سے یہ بات مخفی نہیں کہ مولد النبی کے ساتھ وقفہ وفقہ سے کچھ نہ کچھ سانحات کھڑے کئے جا تے رہے ہیں چھٹی صدی ہجری میں اس مقام پر مسجد تھی ۱۲۱۸ھ میں اسے شہید کیا گیا اب اس مقام پر ایک لائبریری قائم ہے جہا ں لوگ جوتے چپل پہن کر جاتے ہیںاور اہل دل کے دل چھلنی ہوتے ہیں---------مولد النبی ﷺکی شہادت کے بعد اہل حدیث مسلک کی ما ننے والی خاتون راھیل شروانیہ حج کو گئیں وہاں آثار صحابہ ، مقامات مقدسہ اور مولد النبی ﷺ کے ساتھ آل سعود کی زیادتیا ں دیکھ کر کس طرح بے قابو ہوگئیں ، اپنے سفر نا مہ ’’زادالسبیل ‘‘ میں لکھتی ہیں ۔
انہوں نے حنفیوں کو شکست دینے کے خیال سے تو قیر اسلام کو ہی مٹانے کا تہیہ کر لیا ہے کیسے افسوس کی با ت ہے کہ تمام نشانات بزرگان دین نابود کر دئے، یہاں تک سر ور کا ئنات کی پیدائش کی جگہ کو مسمار کر دیا ۔اس خدا کے بندہ کے دل میں یہ خوف خدانہ آیا کہ اپنے را ہبر کے اس مقام متبرک کوپامال کرنے سے کیا دنیا میں سر سبز رہیں گے۔ مو لد فاطمہ میں تو میرے جانے کے وقت مدرسہ تھا جس کو اسلام صدقہ جا ریہ کہتا ہے لیکن اس کو بھی مسمار کر دیا۔ میں ہر گز اس با ت کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ ابن سعود کی یہ حرکتیں فی سبیل اللہ ہیں اگر تمام نشانا ت اسلام کو مسمار کردیا تو تم حفاظت کس چیز کی کروگے ۔‘‘
اب آخر میں ایک اور سفر نا مہ ’’ شب جائیکہ من بودم ‘‘ کا ایک درد میں ڈوبا ہوا اقتباس بھی دیکھئے جسے جناب ’’شورش کا شمیری‘‘ نے مقامات مقدسہ کے ساتھ بے با کا نہ جرأت کا روح فرسا منظر دیکھا کہ آنسووں کی زبان میں لکھا ہے :
جس جگہ کو قرآن ،سیرت اور حدیث وتاریخ نے محفوظ کر لیا ہے وہ بے اعتنائی کی مستحق ہے ؟اگر یہ چیزیں مکہ سے نکال دی جائیں تو مکہ کے پاس کیا رہ جاتا ہے ۔ بیت اللہ نے مکہ کو معراج بخشا لیکن اس معراج کو جس صاحب معراج کی معرفت ہم نے پہچانا اس کے آثار و نقوش محفوظ نہ ہوتے تو مکہ میں کر ئہ ارضی کے انسانوں کے لئے کیا کشش تھی ۔ محمد عربی نہ ہوتے تو عربوں کی تاریخ اس کے سوا کیا تھی کہ اور قوموں کی طرح وہ بھی ایک قوم تھے ۔ یہ قرآن سنت نہیں یہ سنگینی وسنگ دلی ہے کہ رسول اللہ کی یاد گاریں مٹائی جائیں اور اپنی یادگار یںکھڑی کی جائیں ۔
مولد النبی ﷺکی شرعی اور تاریخی حیثیت ہمارے پیش نظر ہے اور ہمارے لئے اب یہ فیصلہ آسان ہے کہ جو لوگ اس تاریخی اور شرعی مقام کے ساتھ باغیانہ ،منافرانہ اور متعصبانہ رویہ رکھتے ہیں وہ شریعت وثقافت کے کتنے بڑے مجرم ہیں اور حضور ﷺ سے ان کا قلبی رشتہ کیا ہے،میں اقبال کی زبان میں یہ کہہ کر اپنی بات ختم کروں
اگر باور نداری آں چہ من گفتم
زدیں بگریز و مرد کافر ممیر
٭٭٭