دل ہمیں تم سے لگانا ہی نہ تھا
(ڈاکٹر) محمد حبیب الرحمن (علیگ)
شعبۂ عربی، علامہ اقبال کالج، بہار شریف (نالندہ)
برصغیر ہند و پاک میں فن نعت گوئی کا ذکر آتے ہی ذہن کے پردے پر ایک ایسی عبقری شخصیت کا نام اُبھر کر آتا ہے جن کو بالاتفاق علماء نے آبروئے فن کہا ہے اور ان کی علمی جلالت اور فکری اصالت کے حوالے سے ان کو ایک معجزہ قرار دیا ہے۔ نعت گوئی کے حوالے سے اتنا عظیم شرف امام اہل سنت مولانا احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کے علاوہ اور کس کو زیب دیتا ہے! اور یہ زیبائش محض اس لیے نہیں ہے کہ انھوں نے اعلیٰ درجے کے نعتیہ کلام لکھ کر اس میدان میں اپنا نام مسلّم کر لیا ہے بلکہ اس لیے ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اس فن کو سجا سنوار کر اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں فن کے جملہ اصول اپنی مسلّم پاسداری کی شہادت دیتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے نعت گوئی کا عمل مشق سخن کے ضمن میں نہیں کیا بلکہ وہ ان کی روح کی بالیدگی کا ذریعہ بنا۔ انھوں نے نعت کے ذریعہ روح کو غذا پہنچائی، قلب مضطرب کے لیے سکینت و طمانیت کا سامان مہیا کیا اور تمام تر رنج و غم کا علاج اسی کو سمجھا۔ نعت گوئی کے حوالے سے علماء نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ نعت گوئی کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو مقام و مرتبۂ منعوت صلی اللہ علیہ وسلم سے کما حقہ واقف ہو کیوں کہ شاعری کی دیگر اصناف میں کچھ بھی کہہ گزرنے کی آزادی ہے۔ لیکن نعت میں یہ آزادی سلب کر لی گئی ہے اور شاعر اُسی حد کے اندر اپنی فکری پرواز کو محدود رکھنے پر مجبور ہے جو مقام مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہے۔ اسی لیے نعت گوئی کو دو دھاری تلوار پر چلنے کا فن کہا گیا ہے۔ اس تلوار سے صحیح سالم گزر جانا ہر کس و ناکس کے بس کا نہیں۔ اعلیٰ حضرت اس فن کے بھی امام اس لیے تسلیم کیے گئے ہیں کہ وہ اس عمل میں آگ کے دریا میں ڈوب کر پار ہونے کی ابتلاء و آزمائش سے پوری کامیابی کے ساتھ خود کو گزارا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ انھوں نے اپنی نعتوں میں انھیں موضوعات و مضامین کو برتا ہے جو نعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باب میں تمام علمائے سلف کے نزدیک محبوب و مطلوب رہے ہیں۔ نعت کے سلسلے میں ’’باخدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار‘‘ کو اوّلین کسوٹی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی عشق میں کہیں دیوانگی محبوب ہے تو کہیں ہوشیاری مطلوب۔ یہی ہوشیاری اعلیٰ حضرت کی نعتوں کے ہر ہر شعر سے مترشح ہے جو انھیں برصغیر کے نعت گو شعرا میں امتیازی شان عطا کرتی ہے۔ اس لیے کوئی شخص اگر مقام محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے آگاہ نہ ہو اور قرآن و سنت کے حوالے سے عظمت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے کما حقہ واقف نہ ہو تو وہ ان کی نعتوں سے حظ اٹھانا تو کجا اس کی تفہیم سے بھی قاصر رہے گا۔ کیوں کہ اعلیٰ حضرت کی نعتیں قرآن و سنت سے مستنبط انھیں اوصافِ حمیدہ اور اخلاق کریمانہ سے عبارت ہیں جن کا اظہار قرآن حکیم میں اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ سے ہوا ہے۔ جن حضرات نے اعلیٰ حضرت کی نعتوں کا لسانیاتی مطالعہ کیا ہے انھیں یہ سراغ ملا ہوگا کہ اعلیٰ حضرت کا ایک خاص ڈکشن ہے جو ان کی نعتوں کو وسیع تر پس منظر عطا کرتا ہے اور اس فن میں انھیں دیگر نعت گو شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میں ا پنی بے بضاعتی کے سبب اس ڈکشن کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہوں۔ اس لیے ان کے بہت سے کلام سے حظ اٹھانے سے محرومی رہتی ہے۔
سردست حدائق بخشش میں شامل ایک ایسے منفرد کلام پر اپنی بساط بھر گفتگو کرنے کی جسارت کروں گا جو اپنے رنگ و آہنگ اور اسلوب و ترنگ کے اعتبار سے حدائق بخشش کی تمام نعتوں سے بالکل جدا ہے۔ اس پورے کلام میں تقریباً ۲۷ اشعار ہیں، جس کا مطلع ؎
راہ پُرخار ہے کیا ہونا ہے
پائوں افگار ہے کیا ہونا ہے
ہے، میں اظہار بے بسی کا جو انداز اختیار کیا گیا ہے وہ اسے ایک عاجز کی التجا، بے بس کی فریاد اور مجرم کا استغاثہ بنا دیتا ہے۔ یہ کلام بارگاہِ خداوندی میں اس عاجزانہ طرز تخاطب کی یاد دلاتا ہے جو صوفیائے کرام کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ علامتوں سے اظہار، استعاروں سے سروکار اور کنایوں میں باتیں کلام کو ادب کا ایسا شہ پارہ بنا دیتا ہے جسے جتنا پڑھئے اتنا ہی لطف دیتا ہے۔ اقرار جرم کے بعد مجرم فیصلے کا ا نتظار کرتا ہے اور اس متوقع سزا کے لیے وہ تیار رہتا ہے جو اس کے حق میں ہونا ہوتا ہے۔ یہاں بھی بالکل وہی صورتحال ہے۔ دوستی کے تقاضوں سے انحراف کے نتیجے میں جو سزا مقرر ہے اس کا عاجزانہ اعتراف پھر اعترافِ جرم پر کھلی عدالت میں اعلانِ سزاکے بعد کی کیفیت اور بیچارگی کا اظہار جس طرح اعلیٰ حضرت نے کیا ہے وہ بس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
دنیا کو سرائے فانی کہا گیا ہے، جہاں انسان کو ایک مسافر کی حیثیت سے معینہ مدت تک قیام کے لیے بھیجا گیا ہے اور اس مدت میں اسے آخری منزل، آخرت کی تیاری کرتے رہنا ہے۔ لیکن انسان ہے کہ سرائے فانی کی چکاچوند سے ایسا مسحور ہو جاتا ہے اور دنیا میں اس طرح لگ جاتا ہے جیسے اسے اپنی آخری منزل کی طرف بڑھنا ہی نہیں۔ دنیا سے دلبستگی کا یہ عالم کہ اگر کوئی اسے خوابِ غفلت سے بیدار کر کے آخرت کے لیے تیار ہونے کو کہے تو وہ اس کو اس طرح جھڑک دیتا ہے جیسے وہ اس کا دشمن ہو۔ ظاہر ہے بیمار اگر طبیب کی تجویز کردہ دوا لینے سے انکار کرے تو اس کا انجام کیا ہونا ہے، بتانے کی ضرورت نہیں۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ؎
میٹھے شربت دے مسیحا جب بھی
ضد ہے انکار ہے، کیا ہونا ہے !
ہم کو بِد کر وہی کرنا جس سے
دوست بیزار ہے، کیا ہونا ہے !
مسافر عارضی پڑائو پر ایسا محو ہو گیا کہ اسے کل سفر پر روانہ ہونا ہے، اسکی بھی سدھ نہ رہی۔ اس کیفیت کے اظہار میں کیسی قلق شامل ہے ملاحظہ فرمائیے اور صوفیانہ رنگ سے لبریز اس کیفیت سے خود کو بھی گزار کر دیکھئے کہ کیسی رقت طاری ہوتی ہے ؎
دور جانا ہے رہا دن تھوڑا
راہ دُشوار ہے، کیا ہونا ہے!
ہائے رے نیند مسافر تیری
کوچ تیار ہے، کیا ہونا ہے!
گھر بھی جانا ہے مسافر کہ نہیں
مت پہ کیا مار ہے، کیا ہونا ہے!
اعلیٰ حضرت کا یہ پورا فریاد نامہ اس شعر کی بہترین تعبیر و تشریح ہے ’’یہ شہادت گہِ الفت پہ قدم رکھنا ہے ؛ لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا‘‘۔ اُن کے یہ اشعار دیکھئے ؎
راہ تو تیغ پر اور تلووں کو
گلۂ خار ہے، کیا ہونا ہے!
روشنی کی ہمیں عادت اور گھر
تیرہ و تار ہے، کیا ہونا ہے!
بیچ میں آگ کا دریا حائل
قصد اُس پار ہے، کیا ہونا ہے!
قیامت کے دن دیدارِ یار کا مژدہ ہے۔ لیکن اس کو دیکھنے والی آنکھیں کہاں سے لائی جائیں۔ کیوں کہ گناہ و معصیت میں ملوث یہ آنکھیں اس لائق کہاں کہ جلوۂ محبوب کی طرف اُٹھنے کی جرأت بھی کر سکے۔ کس منہ سے دربارِ عالی میں حاضر ہو کر فریاد کی جائے، سوائے اس کے کہ خاموشی کو زبان بنا کر تمام جرموں کا اقبال کر لیا جائے۔ دیکھئے اعلیٰ حضرت کس طرح اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ؎
کام زنداں کے کیے اور ہمیں
شوقِ گلزار ہے، کیا ہونا ہے!
کل تو دیدار کا دن اور یہاں
آنکھ بیکار ہے، کیا ہونا ہے!
منہ دکھانے کا نہیں اور سحر
عام دربار ہے، کیا ہونا ہے!
واں نہیں بات بنانے کی مجال
چارہ اقرار ہے، کیا ہونا ہے!
اُن کو رحم آئے تو آئے ورنہ
وہ کڑی مار ہے، کیا ہونا ہے!
انسان اگر اس بات کو دھیان میں رکھے کہ زندگی اس کے اصلی سفر کا ایک پڑائو ہے تو پھر وہ دنیا کی آلائشوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی فکر کرے۔ لیکن جب دنیا کے ہی ہو کر رہ گئے اور اس کی بے پناہ لذتوں میں کھو گئے تو یہاں سے کوچ کرنے کی بات تو بارِ خاطر ہوگی ہی اور جب اس حقیقت کا ادراک ہو جائے کہ سفر تو ناگزیر ہے تو پھر سوائے پچھتاوے کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ؎
ساتھ والوں نے یہیں چھوڑ دیا
بے کسی یار ہے، کیا ہونا ہے!
دل ہمیں تم سے لگانا ہی نہ تھا
اب سفر بار ہے، کیا ہونا ہے!
اسی طرح جانے والوں پر عزیز و اقارب کا آہ و فغاں کرنا بھی فطری امر ہے۔ اسی لیے آخری وقت میں تلقین کرنے کی تاکید کی گئی ہے تاکہ اس وقت کم از کم اس کی توجہ مالک حقیقی کی طرف رہے اور خاتمہ بالخیر ہو۔ وقت نزع آہ و فغاں اور گریہ و زاری جھوٹی محبت اور دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو صرفِ توجہ کا سبب بن کر آخرت کی بربادی پر منتج ہو سکتا ہے۔ دیکھئے اعلیٰ حضرت نے اس کیفیت کا اظہار کس طرح کیا ہے ؎
جانے والوں پہ یہ رونا کیسا ؟
بندہ ناچار ہے، کیا ہونا ہے!
نزع میں دھیان نہ بٹ جائے کہیں
یہ عبث پیار ہے، کیا ہونا ہے!
اس کا غم ہے کہ ہر اک کی صورت
گلے کا ہار ہے، کیا ہونا ہے!
لیکن بارِ عصیاں سے دَبے پریشان حال مجرم کو جب اپنے رب کی ستاری و غفاری کا خیال آتا ہے تو یکایک بانچھیں کھل اٹھتی ہیں، آس جگتی ہیں اور اُمیدیں بیدار ہوتی ہیں، ہونٹوں پر مسکراہٹیں رقص کرنے لگتی ہیں اور دل سرشار ہو اٹھتا ہے اور تب زبان اس شعر کا وِرد کرنے لگتی ہے
کیوں رضاؔ کڑھتے ہو ہنستے اٹھو
جب وہ غفار ہے، کیا ہونا ہے!
ذرا دیکھئے کہ محض ایک تصور سے ساری کلفتیں کس طرح کافور ہو جاتی ہیں! ایک گنہ گار کا اپنے رب کی غفاری پر ایسا بھروسہ ہو تو کیا اس کا رب اسے یونہی حیران و پریشان چھوڑ دے گا؟!
٭٭٭