MEHR KI HAQIAQAT AOR US KI SHARI HAISIYAT

  • Home
  • MEHR KI HAQIAQAT AOR US KI SHARI HAISIYAT

MEHR KI HAQIAQAT AOR US KI SHARI HAISIYAT

image

مہر کی حقیقت،اقسام اور شرعی حیثیت
فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں
مولانا محمد صابر رضا محب القادری 
 

     امام احمد رضا قدس سرہٗ یوں تو ہر علم وفن میں کامل دسترس رکھتے تھے، مگر فقہ میں ان کو جو تبحر اور گہرائی حاصل تھی، اس کی مثال نادر الوجود ہے، ان کے فتاویٰ کا مجموعہ ’’ فتاویٰ رضویہ‘‘ فقہ حنفی کا عظیم انسائیکلو پیڈیا ہے، جہاں سے حقائق ومعارف کی بے شمار نہریں پھوٹتی ہیں بلا شبہ یہ مختلف فنون کا گنجہائے گرانمایہ ہے، اس میں تحقیق وتدقیق ، توضیح وتنقیح اور تنقیدو تطبیق کی ایک دنیا آباد ہے، جس سے امام احمدرضا کی اعلیٰ ذہانت تعمق نظری اور فقہی بصیرت پورے طور پر مشرح ہوتی ہے۔
    امام احمد رضا نے قوم مسلم کے شبانہ روز پیش آنے والے مسائل کے زلف برہم کو بڑی باریک بینی اور مہارت فقہی سے سنوارااور بہت سے وہ مسائل جن میں عوام خواص بھی پریشان تھے، انہیںامام احمد رضا نے اپنی مجتہدانہ شان، مجددانہ طمطراق اور محققانہ جلال کے ذریعہ حل فرماکر ملت اسلامیہ کے لیے آسانیاں فراہم کردیں۔
    یہی وجہ ہے کہ فتاویٰ رضویہ اس زمانے سے لیکر اس زمانے تک اصحاب افتاء کا مرجع ومعتمد ہے، جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ فتاویٰ رضویہ علوم ومعارف کا بحر ذخار ہے اور اس میں مختلف فنون پر سیر حاصل بحث کی جاسکتی ہے، آئیے مہر کے حوالے سے بھی امام احمد رضا کی نادر تحقیقات کا جائزہ لیں، مہر کے حوالے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ مہر کیا ہے، اور اس کی کتنی قسم ہے، تاکہ مہر باندھتے وقت یہ سمجھ میں آئے کہ ہمارے لئے مہر کے حوالہ سے کون سی ذمہ داری عائد ہورہی ہے۔ 
    یاد رہے کہ شوہر کے ذمہ مہر عورت کا ایک ایسا حق ہے جس کی ادائیگی بہر صورت ضروری ہے ، عدم ادائیگی پر قیامت کے دن مواخذہ ہوگا قرآن حکیم میں اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے ’’ واٰتو النسآء صدُ قٰتھن تحلۃ فان طبن لکم عن شیٔ منہ نفسا فکلوہ ھنیأ مرنا‘‘ (سورہ نساء پ ۴)ترجمہ:  اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو، پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سیے مہر میں سے کچھ دیدیں تو اسے کھائو اچتابچتا۔ 
    مہر کے اقسام کے حوالہ سے فتاویٰ رضویہ میں پوری تصریح موجود ہے ، امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں ’’ مہر تین قسم ہے ‘‘ ۔
    (۱) معجل : کہ پیش ازرخصت دینا قرار پالیا ہو، اس کے لیے عورت کو اختیار ہے کہ جب تک وصول نہ کرے رخصت نہ ہو اور اگر رخصت ہوگئی توا سے اب بھی اختیار ہے کہ جب چاہے مطالبہ کرے اور اس کے وصول تک نفس کو شوہر سے روک لے، اگرر چہ رخصت کوبیس برس گذرگئے ہوں ۔ 
    (۲) مؤجل:  جس کی میعاد قرار پائی ہو کہ دس یا بیس برس یا پانچ دن کے بعد اداکیا جائیگا، اس میں جب تک وہ میعاد نہ گذرے عورت کو مطالبہ کا اختیار نہیں، اور بعد انقضائے میعاد  مطالبہ کرسکتی ہے۔ 
    (۳) موخر:  جو کہ نہ پیش گی کی شرط ٹھہری ہو نہ کوئی میعاد معین کی گئی ہو یو نہی مطلق ومبہم طور پر بندھا ہو جیسا کہ آج کل عام مہر یوں ہی بندھتے ہیں اس میں تاوقتیکہ موت یا طلاق نہ ہو عورت کو مطالبہ کا اختیار نہیں ۔ مہر معجل اور موجل کے شرع مطہر نے کو ئی تعداد معین نہ فرمائی ، جتنا پیشگی دینا ٹھہرے اس قدر معجل ہوگا، باقی کی کوئی میعاد قرار پائی تو اتنا موجل ہوگا ورنہ موخر رہے گا ۔
                    (فتاویٰ رضویہ ج۱۲، ص۱۷۱)
    اب سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ مہر کی مقدار کیا ہو، عام طور پر شادی کے موقع سے اس موضوع پر تکرار ہوجاتی ہے ، اور محبت کے بجائے جدال کا ماحول بن جاتاہے اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ مہر دراصل کتنا ہونا چاہیے۔
    امام احمد رضا قدس سرہٗ فرماتے ہیں مہر کا اقل درجہ دس درہم بھر چاندی ہے، اور اکثر کےلئے حد نہیں جتنا باندھے، اور مہر حضرت بتول زہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چار سو مثقال چاندی تھا، کہ یہاں کے ایک سو ساٹھ روپے بھر ہوئی، اور مہر اکثر ازواج مطہرات پانچ سودرہم ،کہ یہاں کے ایک سوچالیس روپے ہوئے ، اور مہر حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وعنہن جمیعامیں دوروایتیں ہیں، چار ہزار درھم کہ گیارہ سو بیس روپے ہوئے یا چار ہزار دینار گیارہ ہزار دو سوروپے واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ ،ج۱۱، ص ۲۴۸)
    اس فتویٰ کی روسے ہمیں یہ تاریخی باتیں معلوم ہو ئیں ۔ (۱) مہر کا اقل مقدار دس درہم بھر چاندی ہے۔ (۲) حضرت فاطمہ زہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مہر چار سومثقال چاندی تھا۔ (۳) اکثر ازواج مطہرات کا مہرپانچ سو درہم تھا۔ (۴) حضرت ام المؤ منین ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے مہر سے متعلق دوروایتیں ہیں ایک چارہزار درہم اور ایک روایت میں چار ہزار دینار۔ 
    دوسرا یہ سوال کہ لڑکے کی حیثیت سے زیادہ مہر باندھنا کیسا؟ یہ بڑا اہم سوال ہے ، اس لئے کہ ہمارے سماج میں مہر زیادہ متعین کرنا ایک فیشن ہوگیا ہے ، دیکھنا یہ ہے کہ مہر متعین کرنے میں لڑکے کی حیثیت بھی کوئی اہمیت رکھتی ہے یااس پر سرے سے کوئی بندش ہی نہیں اس سلسلے میں امام احمد رضا فرماتے ہیں:
    ’’ حیثیت کا لحاظ رکھنا مناسب ہے مگر نکاح ہر طرح ہوجائیگا ،اگر چہ نان شبینہ کے محتاج ، تمام خزائن دنیا کے برابر مہر باندھا جائے، مہر نکاح میں اصل نہیں، لہذا نفی مہر کے ساتھ بھی نکاح صحیح ہے مہر مثل لازم ہوگا۔‘‘
    امیر المؤ منین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک بار خطبہ میں مفالاۃ فی المحصور یعنی حیثیت سے زیادہ مہر باندھنے پر انکار شدید فرمایا، حاضرین میں سے ایک بی بی اٹھی اور آیۃ کریمہ اٰتیتم احلاھن قنطارا ‘‘ تم ان عورتوں کو ڈھیر مال دیتے ہو، تلاوت کی جس میں سونے کا ڈھیر عورت کے مہر میں مقرر کرنا جائز فرمایا گیا، فوراً امیر المؤ منین نے انکار سے رجوع فرمایا اور بکمال تواضع فرمایا اللھم کل احدا فقہ من عمرحتی المحذر ات  ‘‘ یااللہ عمر سے ہر ایک زیادہ فقیہ ہے حتی کہ پردہ دار عورتیں بھی ، ہاں یہ ناجائز ہے کہ مہر باندھنے اور ادا کرنے کی نیت نہ ہو، اگر چہ اس کی حیثیت سے کتنا ہی کم ہو، اسی کو حدیث میں فر مایا ہے، وہ زانی اور زانیہ اٹھائے جائیں گے، یہ اس حدیث میں نہیں کہ وہ شرعا زانی اور زانیہ ہیں ، اور اولاد حرامی ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج۱۱، ص ۲۸۴)
    امام احمدرضا صرف مفتی وعالم نہیں عارف بھی ہیںاس لیے جواب میں علم ومعرفت کے چشمے ابلتے ہیں ان کے اس فتویٰ سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ حیثیت کا لحاظ رکھنا مناسب ہے، وہیںیہ بات بھی معلوم ہوئی کہ (۱)حیثیت سے زیادہ باندھنے پر نکاح کے نفاذ میں کوئی قباحت نہیں(۲) مہر نکاح میں اصل نہیں(۳) نفی ِمہر کے ساتھ بھی نکاح نافذ ہوجائیگا(۴) مہر مثل اور مہر نہ باندھنا یا پھر باندھ کر اداکی نیت نہ رکھنا اس کی سزا حدیث پاک میں یہ کہ وہ زانی اور زانیہ اٹھائے جائیںگے ،یقیناً آج کے ماحول میں قابل غور اور قابل عمل ہے۔نیز اسی فتویٰ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق پیش کردہ واقعہ  سے یہ بھی واضح فرمادیا کہ بڑایقینا بڑا ہے کہ اس کی فکر اس کا کردار اور اس کی سوچ بڑی ہے، ایک عورت کے استدلال اور پیش کردہ آیت کو سن کر بجائے اس کے کہ آپ کبیدہ خاطر ہوں اور اپنی کہی ہوئی بات پر اڑے رہیں کتنا پیارا جواب عطا فرمایا ’’ کل احدا فقہ من عمر حتی المحذر ات‘‘ یعنی ہر ادنیٰ عمرسے زیادہ جاننے والا ہے ، یہاں تک کہ پردہ دارخواتین، یقینا یہ واقعہ ہمارے لیے درس عبرت ہے کہ ہم اپنی بات  پربلاوجہ اڑے رہنا فخر سمجھتے ہیں جبکہ فخرحق قبول کرنے میںہے حق چھوڑنے میں نہیں۔ 
    ازواج مطہرات اور بنات مکرمات کے مہر سے متعلق فتاویٰ رضویہ جلد ۱۲ کے صفحہ ۱۳۶ پر تحریر ہے ، امام احمد رضا اس کی تفصیل کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔ 
    عام ازواج مطہرات وبنات مکرمات حضور پرنور سید الکائنات علیہ وعلیہن افضل الصلوٰۃ واکمل التحیات کا مہر اقدس پانچ سودرہم سے زیادہ نہ تھا ، صحیح مسلم شریف میں ابو مسلمہ نے فرمایا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ حضور ﷺ نے کتنا مہر رکھا تھا۔ 
    تو انہوں نے فرمایا ’’ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ازواج کے لیے بارہ اوقیہ (چالیس درہم فی اوقیہ) اور ایک نش مقرر فرمایا تو آپ نے فرمایا نہیں معلوم نش کیا ہوتاہے، تو میں نے کہا نہیں تو آپ نے فرمایا نش نصف اوقیہ کو کہتے ہیں تو یہ کل پانچ سودرہم ہوئے ‘‘ امام احمد دارمی اور سنن اربعہ ، ابودائود نسائی ،ترمذی ، ابن ماجہ نے امیر المؤ منین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کیا کہ انہوں نے فرمایا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی ازواج یاصاحبزادیوں کا نکاح بارہ اوقیہ سے زیادہ میں کیا ہو ۔ یہ مجھے معلوم نہیں ، مگر ام المؤ منین حضرت ام حبیبہ بنت ابوسفیان ، خواہر جناب امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کا مہر ایک روایت میں چار ہزار درہم کما فی سنن ابی دائود اور دوسری روایت میں چار ہزار درہم کما فی سنن ابی دائود اور دوسری روایت میں چار ہزار دینا تھا جیسا کہ مستدرک میں حاکم نے تصحیح کی، اور ذہبی نے اس کو ثابت مانا یہ حضرت ام المؤ منین اور عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کا مخالف نہیں ہے کیو نکہ یہ مہر حضور ﷺ نے مقرر نہیں کیا بلکہ حبشہ کے بادشاہ سیدنا نجاشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقرر کیا تھا ۔اس فتویٰ سے یہ باتیں واضح ہوئیں کہ:
    سرکار کائنات کے ازواج مطہرات اور بنات مکرمات کا مہر پانچ سودرہم سے زیادہ نہ تھا ، اور ام المؤ منین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے متعلق جو دوروایتیں ہیں تو ان کا مہر حضرت سیدنا نجاشی رضی اللہ نے مقرر کیاتھا اور ام المؤ منین حضرت ام حبیبہ سرکار کی زوجہ حضرت ابوسفیان کی بیٹی اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن ہیں یہ وہ باتیں جو دوسری جگہ خال خال ملتی ہیں۔ امام احمد رضا کا ہی یہ خاصا ہے کہ انہوں نے ایک فقہی جواب میں تاریخی گوشوں سے بھی ہمیں روشناس فرمایا۔ 
    پھر عہد رسالت سے عہد فاروقی تک کے دراہم کی مقدار اور اس کی کیفیت کیا تھی، خاص کر مہر فاطمی سے متعلق کثیر اختلافات پائے جائے تھے امام احمدرضا نے فقہائے کرام کے درمیان اختلافات کی تصریح اور اشکال واعتراضات کا دفاع کرتے ہوئے بڑی نفس تحقیق پیش کی ہے ، اور عہد رسالت سے عہد فاروقی تک کے دراہم کی کمیت اور کیفیت کو بڑے واضحح انداز میں بیان فرمایا ہے ایک سوال کا جواب رقم کرتے ہوئے امام احمد رضا اپنی تحقیق یوں پیش فرماتے ہیں:
    ’’ میں کہتا ہوں کوئی اشکال نہیں کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عہد اورحضرت ابو بکر صدیق اورحضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے عہد تک مختلف دراہم تھے، کچھ کاوزن ایک مثقال اور کچھ کا اس سے کم تھا ، پھر عمر فاروق نے اس کو وزن سبعہ پر مقرر فرمایا ردالمحتار میں طحطاوی سے انہوں نے منح الغفار سے نقل کیا کہ جاننا چاہیے کہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں دراہم مختلف تھے، بعض دراہم کا وزن دس مثقال تھا، اور بعض کا چھ مثقال اور بعض کا وزن پانچ مثقال تھا تو حضرت عمر فاروق نے تینوں قسموں میں سے ہر ایک کاثلث لیا تاکہ لینے دینے میں جھگڑا نہ ہو تو مجموع کا وزن سات ہوا ، اس لیے دس درہم کا وزن سات مثقال قرار پایا اور خزانۃ المفتین میں ظ کے رمز سے امام ظہیر الدین کے فتاویٰ کی طرف اشارا کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں وزن مختلف تھے ، بعض دراہم بیس قیراط تھے اور بعض کا وزن دس قیراط تھا جن کو پانچ کا وزن کہتے ہیں ، اور بعض کا وزن ۱۲ قیراط تھا جن کو چھ کا وزن کہتے تھے ، سو جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عہد آیاتو لوگوں نے مطالبہ کیا کہ ایک سکہ ہونا چاہیے تو آپ نے ہر ایک سے کچھ لیا اس پر دلیل یہ بھی ہے کہ محقق علیہ الرحمہ نے زرہ کو مہر معجل قرار دیا جو کہ چار سو اسی درہم میں فروخت ہوئی ، تو یہ کیسے ہو سکتاہے کہ کل چارسو میں چارسو اسی معجل ہوں، پس حاصل یہ قرار پایا کہ اصل مہر کریم جس پر عقد اقدس واقع ہوا چار سو مثقال چاندی تھا ،لہذ اعلماء سیرنے اسی پر جزم فرمایا۔
    پھر امام احمد رضا مرقاۃ، مواہب، وغیرہ کی عبارتیں پیش کرنے کے بعد مثقال کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
    ’’ مثقال ساڑھے چار ماشہ ہے اور یہاں کا روپیہ سوا گیارہ ماشے تو چار سو مثقال کے پورے ایک سو ساٹھ (۱۶۰) روپے ہوئے، فاحفظہ فلعلک لاتجد ھٰذا التحریر فی غیر ھٰذا لتحریر ، اس کو محفوظ کرلو ہوسکتاہے ، کہ آپ کو یہ تحریر دوسری جگہ نہ ملے واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔ 
                    (فتاویٰ رضویہ ج۱۲، ص ۱۵۶)
    قارئین اس فتویٰ کا یہ جملہفاحفظہ فلعلک لاتجد ھٰذا التحریر فی غیر ھٰذا التحریر اما احمد رضا کی فقہی عظمت اور محققانہ شان کو واضح کرتاہے، یقینا ایسا وہی کہے گا جس کے مطالعہ کی وسعت تمام فقہی جزئیات کو محیط ہو ،امام احمد رضا کی ہر تحریر قابل حفظ وضبط ہے، بہر حال اس فتویٰ سے جہاں دراہم کے صحیح وزن کی تحقیق واضح فرمائی، وہیں یہ بھی واضح کردیا کہ مہر فاطمی اصل کیاتھا۔ 
    مہر سے متعلق سوالا ت کے جوابات سے فتاویٰ رضویہ کے صفحات بھرے پڑے ہیں جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر موضوعات کے علاوہ مہر کے حولے سے بھی کتنے باریک اور اہم نکتے فتاویٰ رضویہ میں پیش کئے گئے ہیں اور اس یقین کے ساتھ پیش ہوئے ہیں کہ اس جگہ کے علاوہ یہ تحقیق اور کہیں نہ ملے گی ۔
    بلاشبہ امام احمدرضا کو پروردگار عالم نے اپنے محبوب ﷺ کا علمی معجزہ بناکر بھیجاتھا، خدائے تعالیٰ ہمیں ان کے فیضان سے مالال فرمائے۔