الفقر فخری : معنیٰ مفہوم اور انطباق
فتاویٰ ر ضویہ ؕکی روشنی میں
مولانا غلام سرور قادری
القلم فاؤنڈیشن سلطان گنج پٹنہ
حضور اکرم ﷺ کی ذات اقدس کی طرف بعض ایسی روایات منسوب ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ،محدثین کے یہاں احادیث کی دیگر اقسام میں ایک ’’موضوع احادیث ‘‘ بھی ہے جو در اصل حدیث ہے ہی نہیں،یوں ہی بعض بزرگوں کے فرمودات بھی احادیث کے نام سے مشہور کردی گئی ہیں اور عوام میں وہ مستند سمجھی جاتی ہیں جب کہ وہ کسی بزرگ کا قول ہے حدیث نہیں ،اسی قبیل سے ایک مشہور روایت الفقر فخری بھی ہے جس کا حدیث ہونا عوام بلکہ خواص میں بھی مشہور ہے اورنظم ونثر دونوں میں یہ حدیث کی حیثیت سے اپنی جگہ بناچکی ہے،بعض بزرگوں کے یہاں بھی یہ بطور حدیث موجود ہے ،مگر علما کا ایک بڑا طبقہ اس کے ظاہری معنیٰ کے اعتبار سے اسے حدیث تسلیم نہیں کرتا،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے اس سلسلہ میں فتاویٰ رضویہ میں بڑی علمی بحث کی ہے اور تحقیق کے ذریعہ واضح فرمایاہے کہ روایت ودرایت، معنیٰ ومفہوم کسی بھی اعتبار سے یہ حدیث ثابت نہیں ہوتی،ذیل میں اسی حوالے سے ایک تفصیل ملاحظہ کریں
لفظی تحقیق:
’’فقر‘‘ کامعنیٰ ہے ضدالغنی(لسان العرب ،ص ۲۹۹ج۱۰)، مفلسی،غم(مصباح اللغات ص۶۴۱)،درویشی، محتاجی(فیروز اللغات،۶۱۲)،فقیر ،افلاس، (فرہنگ فارسی یعنی جدیدلغات فارسی،ص ۶۹۹)،افلاس ، ضرورت ،فقیر ،کھودینا (فرہنگ عامرہ،۳۵۳) افلاس،فقیرکی(لغات کشوری،ص۵۳۹)،مفلسی ،غم(المنجد ص ۷۵۷ )حاجت ،احتیاج، محتاجی، درویشی ، فقیری، افلاس،(فرہنگ آصفیہ،ص۱۴۳۳،ج۲)،اور درویشی ومحتاجی (نور اللغات،ص۶۳۰،ج۳)
الفقر فخری کا معنیٰ:
معانی مذکورہ کے تناظر میں’’ الفقر فخری‘‘کا معنیٰ ہوا ،درویشی میرا فخر ہے۔ محتاجی میرا فخر ہے، افلاس میرا فخر ہے، اور ضرورت میرا فخر ہے وغیرہ اب آئیے اس معنیٰ کے تناظر میں دیکھیں کہ حضور ﷺ پر اس معنیٰ کے اطلاق کی کوئی صورت ہے یا نہیں ۔
قرآن سے فقر کی نفی اور اختیار کا ثبوت:
(۱)’’ومانقمواالاان اغنٰھم اللہ ورسولہٗ من فضلہٖ‘‘اور انہیں کیا برا لگا یہی نہ کہ اللہ ورسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا (کنزالایمان ،ص۳۱۸)(۲) ووجدک عائلا فاغنی اور تمہیں حاجت مند پایا پھر غنی کردیا۔(کنز الایمان ،ص۹۵۳)(۳)ولو انھم رضواما اتھم اللہ ورسولہ وقالوا حسبنا اللہ سیؤتیناالہ من فضلہ ورسولہ انا الی اللہ راغبوناگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ ورسول نے ان کو دیا اور اکہتے ہمیں اللہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ کا رسول ہمیں اللہ ہی کی طرف رغبت ہے۔ (کنز الایمان،ص۳۱۴)(۴)واذتقول للذی انعم اللہ علیہ وانعمت عیلہاور اے محبوب یاد کرو جب تم فرماتے تھے اس سیجسے الہ نے نعمت دی اور تم نے اسے نعمت دی ۔(کنز الایمان ،ص ۶۷۴)(۵)وما اٰتکم الرسول فخذوہ وما نھکم عنہ فانتھوا اور جو کچھ تمہیں رسول عطافرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(کنز الایمان ،ص ۸۷۲)ان تمام آیات سے واضح ہے کہ مختار کائنات ﷺ مالک ہیں مختار ہیں بانٹنے والے ہیں۔
احادیث سے فقر کی نفی اور اختیا ر کا ثبوت:
(۱) اللہ کے نبی ﷺ فرماتے ہیں ’’وانما انا قاسم واللہ یعطی ‘‘اور بلاشبہ میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ عطافرمانے والا ہے ۔ (بخاری شریف ،ج۱،ص۱۶)(۲) ’’وانی اعطیت مفاتیح خزائن الارض اومفاتیح الارض ‘‘اور بے شک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ (بخاری شریف،ج۲،ص۵۸۵)(۳)’’وبینا انا نائم رأتنی ایت بمفاتیح خزائن الارض فوضعت فی یدی متفق علیہ‘‘ اور میں سورہا تھا کہ تمام خزائن زمین کی کنجیاں لائی گئیں اور میرے دونوں ہاتھوں میں رکھ دی گئیں۔ (مشکوٰۃ شریف، ۵۱۲)(۴) سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہ الکریم سے مروی حضور مالک ومختار ﷺ فرماتے ہیں۔ ’’اعطیت مالم یعط احد من الانبیاء نصر ت بالرعب واعطیت مفاتیح الارض ‘‘مجھے وہ عطاہوا جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہ ملا رعب سے مدد فرمائی گئی کہ مہینہ بھر کی راہ پر دشمن میرا نام پاک سنکر کانپتے اور مجھے ساری زمین کی کنجیاں عطا ہوئیں۔ (الخصائص الکبریٰ ،ج۲،ص۱۹۳)(۵) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںکہ ایک شخص نے آپ سے سوال کیا اور اس وقت رسول اللہ ﷺ کے پاس اتنی بکریاں تھیں جن سے دوپہاڑوں کے درمیان کی جگہ بھری ہوئی تھی آپ نے وہ ساری بکریاں اسے عطا فرمادیں جب وہ اپنے قبیلے میں پہونچا تو قبیلے والوں سے کہنے لگا بھائیو! مسلمان ہوجائو کیونکہ محمد رسول اللہﷺ اتنی سخاوت کرتے ہیں کہ مال کے ختم ہونے کا اندیشہ دل میں لاتے ہی نہیں ۔ (شفاشریف مترجم، ص۱۷۸)
احادیث کریمہ بھی آیات کی شاہدہیں کہ میرے آقا ﷺ غنی ،مالک قاسم اور سخی ہیں ۔ گویا قرآن واحادیث نے واضح کردیا کہ حضور اکرم ﷺ ’’فقر ‘‘سے پاک ہیں ۔حضرت علامہ بوصیری علیہ الرحمہ کے قصیدہ بردہ کے مندرجہ ذیل اشعار بھی اسی معنیٰ میں ہیں
یااکرم الخلق مالی من الوذبہ
سواک عند حلول الحادث العمم
اے سب سے مکرم! حادثات کے وقت میرے پاس کوئی اور نہیں جس کے پاس جاکر پناہ لوں ، یعنی قیامت کو آپ ہی کے دامن میں پناہ ملے گی
فان من جودک الدنیا وضرتہا
ومن علومک علم اللوح والقلم
دنیا وآخرت کی بخشش آپ ہی کی وجہ سے معرض وجود میں آئیں اور لوح وقلم کا علم آپ ﷺ کے علم کا حصہ ہے
حاشاہ ان یحرم الراجی مکارمہ
اویرجع الجار منہ غیر محترم
یہ نہیں ہوسکتا کہ آپ کی ذات اقدس سے فیض وکرم کی امید لگانے والا محروم رہ جائے یا آپ کے دامان رحمت میں پناہ لینے والا بے احترام واپس آئے
ولن یفوت الغناء منہ یداً تربت
ان الحیا ینبت الازھار فی الاکم
اور آپ کی سخاوت کسی محتاج کے ہاتھ کو خالی نہیں رہنے دیتی کیونکہ بارش ٹیلوں پر بھی سبزے کو اگا دیتی ہے
یا خیر من یتمم العافون ساحتہ
سعیا وفوق موتون الاینق الارسم
اے سب سے اچھے سخی جس کے دربار میں اہل حاجت پیادہ اور تیز رفتار اونٹنیوں پر بیٹھ چلے آتے ہیں
علمائے کرام ومحدثین عظام کے اقوال سے فقر کی نفی اور الفقر فخری کی حیثیت :
(۱)خزانہ اکمل مقدسی ورد المحتار اواخر شتیٰ میں ہے ’’یجب ذکرہٗ ﷺ باسماء مظمۃ فلا یجوز ای ایقال انہ فقیر غریب مسکین‘‘حضور اکرم ﷺ کا تذکرہ با عظمت اسماء کے ساتھ کرنا لازم وفرض ہے آپ ﷺ کو فقیر ، غریب اور مسکین کہنا جائز نہیں۔
(۲) زرقانی علی المواھب میں ہےقال تعالیٰ ووجدک عائدلا فاغنیٰ نص علی انہ اغناہ بعد ذلک فزال عنہ ذالک الوصف فلا یجوز وصفہ بہ بعداللہ تعالیٰ کا فرمان مبارک ، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو محتاج پایا تو غنی کردیا، واضح طور پر شاہد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو غنی کردیا ہے جس سے محتاجی والا وصف زائل ہو چکا ہے ، لہٰذا اس کے بعد آپ ﷺ کا یہ وصف بیان کرنا ہر گز جائز نہیں۔
اسی (زرقانی علی المواھب) میں ہے(ترجمہ) لفظ یتیم ’’یتم ‘‘سے ہے یعنی بچہ کے بالغ ہونے سے پہلے باپ کا فوت ہونا یا اس کا معنیٰ منفرد اور یکتا ہونا ہے۔ جیسے ہا کہا جاتا ہے در یتیم ’’یکتا موتی‘‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد گرامی ’’کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا‘‘کے تحت مفسرین نے کہا ہے یعنی قریش میں آپ کی مثال نہیں ملتی آپ یکتا ہے ، انتہیٰ۔امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ ومذہب یہ ہے کہ اس نام (یتیم)کا اطلاق آپ پر جائز نہیں
(۳) نسیم الریاض جلد رابع صفحہ ۴۵۰ میں ہےالانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام لایوصفون بی الفقر ولایجوز ان یقال لنبینا ﷺ فقیر وقولھم عنہ الفقر فخری لا اصل لہ کما تقدم تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو فقر کے ساتھ متصف نہیں کیا جاسکتا ہمارے نبی وآقا ﷺ کو فقیر کہنا جائز نہیںباقی آپ ﷺ کے بارے میں جو منقول ہے الفقر فخری (فقر میرا فخر ہے) اس کی کوئی اصل نہیں جیسا کہ گذرا۔
اسی (نسیم الریاض کے صفحہ ۳۷۸)میں ہے(ترجمہ) امام زرکشی نے امام سبکی کی طرح فرمایا حضور ﷺ کو فقیر یا مسکین کہنا ہرگز جائز نہیں آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے بڑھ کر غنی بنایا ہے خصوصاً اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بعد تو اس کی گنجائش ہی نہیں ’’پایا اس نے آپ کو محتاج تو غی کردیا ‘‘باقی آپ ﷺ کی ’’دعا اے اللہ مجھے حالت مسکینی میں زندہ رکھ ‘‘سے قلبی خشوع ومسکنت مراد ہے اور یہ قول’’ فقر میرا فخر ہے‘‘باطل ہے اس کی کوئی اصل نہیں ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا ہے ۔
(۴)شفا شریف امام اجل قاضی عیاض صدر باب اول قسم رابع، میں ہے(ترجمہ)فقہائے اندلس نے ابن ہاتم المتفقۃ الطلیطلی کے قتل اور پھانسی لٹکانے کا فتویٰ دیا اس کے خلاف یہ شہادت ملی کہ اس نے دوران مناظرہ آپ ﷺ کے مقام کی بے ادبی کرتے ہوئے آپ کو یتیم اور حیدر کا سسر کہا اور اس کا خیال یہ تھا کہ آپ ﷺ کا زہد اختیاری نہ تھا اگر آپ طیبات پر قادر ہوتے تو ضرور انہیں استعمال میں لاتے اس کی مثل گستاخی کے دیگر اقوال ۔
شرح علی قاری میں ہےیخفی امر واحد منھا فی تکفیر ہ وقتلہ اس کی تکفیر اور قتل کے لئے ان مذکورہ اشیاء میں ایک ہی کافی ہے ۔نیز شفاء شریف میں ہےافتی ابو الحسن القالبسی فیمن قال فی النبی ﷺ الجمال یتیم ابی طالب بالقتل لظھور استھانتہ بذلک امام ابو الحسن طالبسی نے اس کے قتل کے فتویٰ دیا جو آپ ﷺ کو ابو طالب کا یتیم اونٹوں والا کہے کیونکہ یہ آپ ﷺ کے حق میں توہین ہے ۔
شرح علی قاری میں ہےلعل الجمع بین الوصفین مطابق للواقع فی السوال والا فکل واحد منھما یکفی فی تکفیر صاحب المقال دوچیزوں (اونٹوں والا ، ابو طالب کا یتیم )کو شاید سوال میں جمع ذکر کرنے کی وجہ سے اکٹھا کردیا گیا ہے ورنہ ان دونوں میں سے ایک کا بھی قائل کافر ہے۔ نیز شفا شریف میں بیت معریٰ
کنت موسیٰ وافتہ بنت شعیب
غیر ان لیس فبکما من فقیر
(آپ موسی کی طرح ہیںجن کے پاس حضرت شعیب کی صاحبزادی آئی تھیں مگر بات صرف اتنی ہے کہ تم دونوں میں کوئی فقیر نہیں )پر ارشاد فرمایا ، آخر البیت شدید وداخل فی باب الازراء والتحقیر بالنبی علیہ الصلوٰۃ والسلام تفضیل حال غیرہ علیہ دوسرے شعر کا مصرعہ ثانی نہایت نامناسب اور گستاخی کے باب میں داخل ہے کیونکہ اس میں حضور ﷺ کی شان قدس میں تحقیر وتوہین ہے اور آپ ﷺ پر دوسرے کو فضیلت دی گئی ہے ۔
شرح علی قاری میں ہے ای عجزہ شیدید فی القبح عند تدبرہ لان مضمونہ التعبیر لموسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بفقرہ۔ یعنی اس شعر کے آخری مصرعہ میں اگر تدبر کیا جائے تو اس میں قباحت شیدید ہے کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فقیرکہہ کر عار دلائی گئی ہے جو کہ قباحت کا باعث ہے ۔ نیز شفاء شریف میں اور اشعار بے باکان بدزبان جو اس سے ہلکے میں ذکر کرکے فرمایا ھذہ کلھا وان تتضمن سبا ولا اضافۃ الی الملئکۃ والانبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نقصا ولست اعنی عجزی بیتی المعریٰ ولا قصد قائلھا ازراء وغضا فما وقر النبوۃ ولا عظم الرسالۃ ولا عزر حرمۃ المصطفیٰ ﷺیہ تمام اشعار اگرچہ گستاخی اور فرشتوں اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے نقص پر مشتمل نہیں نہ ہی میں معریٰ کے پورے کلام کو درست سمجھتا ہوں اور نہ ہی ان قائل نے بے ادبی اور طعن کا قصد کیا تاہم ان اشعار میں نبوت کا وقار اور رسالت کی عظمت اور مصطفی کا عزاز نہیںہے۔
شرح علی قاری میں ہے (لست عانی)بھذ االنفی (عجزی بیتی المعریٰ)فانہ کفر واضح والحاد لائح، میں نہیں ہوں (اس نقص اور گستاخی کی )نفی میں معریٰ کے شعروں کو درست قرار دینے والا کیونکہ یہ واضح کفر اور کھلا الحاد ہے ۔
(۵) امام ابن حجر مکی شرح ہمزیہ مبارکہ میں زیر قول ماتن امام محمد بوسیری قدس سرہٗ۔
وسع العالمین علما وحلما
فھو بحر لم تعیہ الاعیاء
مستقل دنیاک ان ینسب
الامساک منھا الیہ والاعطاء
(آپ علم وحلم میں تمام جہانوں سے برتر ہیں وہ ایسا سمندر ہیں جسے کوئی عیب لگانے والا عیب نہیں لگا سکتا ،آپ دنیا کو حقیر وذلیل جانتے ہیں برابر ہے آپ کا غیر مستحق سے دنیا کو روکنا اور مستحق کو عطا کرنا )فرماتے ہیں’’ امام تقی سبکی نے ’’السیف المسلول‘‘ میں ’’الشفاء‘‘ سے نقل کرکے اسے ثابت رکھا ہے کہ فقہاء اندلس نے اس شخص کے قتل کا فتویٰ جاری فرمایا جس نے دوران مناظرہ آپ ﷺ کو فقیر ویتیم کہا اور یہ عقیدہ رکھا کہ آپ ﷺ کا زہد اختیاری نہ تھا اگر آپ اشیاء طیبہ پر قادر ہوتے تو انہیں استعمال میں لاتے ۔ امام بدر زرکشی نے بعض متاخرین فقہاء سے نقل کیا کہ فرمایا کرتے آپ ﷺ ذات گرامی مال کے اعتبار سے فقیر نہیں اور نہ آپ کا حال حال فقیر ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ تمام لوگوں سے غنی بنایا ہے آپ اپنی ذات اور عیال میں دنیا کے کسی معاملے میں ہر گز محتاج نہیں اور یہ بھی فرماتے آپ ﷺ کا جو ارشاد گرامی ہے ’’اے اللہ ! مجھے حالت مسکینی میں زندہ رکھ ‘‘سے دعا کی عاجزی مراد ہے ناکہ وہ غریبی ومحتاجی جو فقر کا مترادف ہے یعنی وہ محتاج جو قوت لایموت نہ رکھتا ہو اور جو اس کے خلاف ذہن وعقیدہ رکھتا اس پر سخت ناراض ہوتے، رہا معاملہ حدیث ’’فقر میرا فخر ہے اور اس پر میں فخر کرتاہوں ‘‘تو یہ موضوع اور من گڑھت روایت ہے کیونکہ آپ ﷺ سے صحیح طور پر ثابت ہے کہ آپ فقر کے فتنہ سے پناہ مانگا کرتے جیسے کہ مالداری کے فتہ سے پناہ مانگتے ۔
ان الفاظ (یتیم، فقیر وغیرہ کو حضور ﷺ کی شان اقدس میں استعمال کرنے ) کے ناجائز اور حرام ہونے پر یہ عبارات متظافرہ ہیں اور فتوائے فقہائے اندلس وامام ابو الحسن قالبسی و تقریرات امام قاضی عیاض وامام تقی الملۃ والدین سبکی و توضیحات علی قاری میں ان پر حکم کفرہے۔ ان ائمہ کرام ومحدثین عظام کی تصریحات کے بعد امام اہل سنت اعلیٰ حضرت قدس سرہٗ فرماتے ہیں:
اقول وباللہ التوفیق ،توفیق جامع وتحقیق لامع یہ ہے کہ ان اوصاف کا اطلاق بروجہ تقریر واثبات خواہ حکم قصدی میں ہو یا وصف عنوانی میں اگر قول قائل کے سیاق یا سباق یاسوق یا مساق سے طرز تنقیص ظاہر وثابت ہو یقینا کفر ہے اور اگر ایسا نہیں اور قائل جاہل ہے اور اس سے صدور نادر ہو اور وہ اس پر غیر مصر ہو تو ہدایت وتنبیہ وزجر وتہدید کریں اور حاکم شرع اس کے مناسب حال تعذیر دے کہ وہ ضرور سزاوار سزا ہے اور اگر قائل مدعی علم ہے یا ایسے کلمات کا عادی یا بعد تنبیہ بھی ان پر مصر تو مریض القلب بددین گمراہ مستحق عذاب شدید ہے ۔ سلطان اسلام اسے قتل کرے گا اور زمین کو اس کی ہستی ناپاک سے پاک اور عام مسلمانوں کو اس کی صحبت ومجالست سے احتراز لام ، اور اسے واعظ یا امام نماز بنانا اس کا وعظ سننا اس کے پیچھے نما زپڑھنا ممنوع وحرام ‘‘
وھٰذا ما قال الامام ابن حجر المکی ونقلہ فی النسیم مقرا علیہ عند ذکر فتیا الامام ابی الحسن القالبسی لمذکورۃ الظاھر ان مذھبنا لایابی ذلک لما فی عبارتہ من الدلالۃ علی الازراء فان ذکر یتیم ابی طالب فقط لم یکن صریحا فی ذالک فیما یظھر نعم ان کا ن السیاق یدل علی الازراء کان کما لوجمع بین اللفظین اھ۔ یہ وہ ہے جو امام ابن حجر مکی نے فرمایا صاحب نسیم الریاض نے اسے امام ابو الحسن القابسی کے فتویٰ مذکورہ کے ساتھ نقل کرکے اسے مؤیدوثابت رکھا ظاہر یہی ہے کہ ہمارامذہب اس کا انکار نہیں کرتا کیونکہ اس کی عبارت میں تو یہیں پر دلالت ہے کیونکہ فقط یتیم ابی طالب کہنے میں ظاہر ا وصراحتاً توہین نہیں ہے ہاں جب کلام کا پس منظر توہین پر دال ہوگا تو یہ توہین بنے گا جیسا کہ اس صورت میں بنتا ہے جب دونوں (یتیم ابی طالب ، اونٹوں والا)کو جمع کردیا گیا ہو ،اھ۔
کلمات بے ادبی کا معاذ اللہ خود کہنا درکنار دوسرے کا کہا ہوا بے غرض رد وانکار لوٹانے پر شفا شریف میں فرمایا(ترجمہ)مباح ہونے کا ایک پہلو یوں بھی ہوسکتا ہے کہ قائل اپنے مقولہ کو ان دو مقاصد کے علاوہ کسی اور انداز کے ساتھ بیان کرے میرے خیال کے مطابق اس طرح اس کا تعلق ان امور میں باقی نہ رہے گا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت سے کسی کو کھیلنا مباح نہیں ہے ، ایسے کلمہ کا بطور حکایت یا لوگوں کی بات یا بطور قیل وقال اور بے مقصد ذکر کرنا ممنوع ہے ۔بعض طرز بیان ممانعت اور عقوبت میں زیادہ شدید ہے کہ حکایت کرنے والے نے بے مقصداور بے علمی میں حکایت کی یا اس کی ایسی عادت نہیں یا وہ بات کھلی بے ادبی نہیں ،بایں طور کہ وہ اس کو پسند اور درست نہیں مانتا تو اس کو زجر کیا جائیگا ۔ اور آئندہ ایسا کرنے سے منع کیا جائے گا اور اگر بطور ادب اس کو کچھ سزا دی جائے تو وہ اس کا مستحق ہے اور اگر وہ الفاظ کھلی بے ادبی ہوں تو سزا سخت ہوگی اور اگر حکایت کرنے والا اس سے متہم ہو کہ حکایت بیان کرتے وقت بناوٹ سے کام لیتا ہے اور غیر کی طرف منسوب کرتے ہوئے حکایت بیان کرے یا اس کی عادت ایسی ہے یا وہ بات اس کے ہاں پسندیدہ ہو تو اس کا حکم وہی ہوگا جو سب کرنے کا حکم ہے یہ اسی کی بات متصور ہوگی اور غیر کی طرف منسوب کرنا اس کو مواخذہ سے نہ بچاسکے گا لہٰذا فوراً قتل کیاجائے اور واصل جہنم کیاجائے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ’’ الفقر فخری ‘‘اپنے معنیٰ ومفہوم کے اعتبار سے حضور ﷺ کی طرف منسوب ہونے کے لائق نہیں اور یہ موضوع اور منگڑھت روایت ہے۔ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی اور دیگر ایمہ کرام کی تصریحات سے ظاہر ہے۔(فتاویٰ رضویہ مترجم ج ۱۴،ص۶۲۶تا۶۳۳)