EMAM AHMAD RAZA KASIRUT TASANIF MOSANNIF

  • Home
  • EMAM AHMAD RAZA KASIRUT TASANIF MOSANNIF

EMAM AHMAD RAZA KASIRUT TASANIF MOSANNIF

image

امام احمد رضا ایک کثیر التصانیف مصنف
از:توفیق احسن ؔبرکاتی، ممبئی

انیسویں صدی کا نصف آخر اور بیسویں صدی کا نصف اول پو رے عالم اسلام کے لیے عموماًاور مسلمانا ن ہند کے لیے خصوصاًبڑے ابتلاو آزمائش اور مذہبی انقلابات کا دور تسلیم کیا گیا ہے ،دنیا کی سب سے بڑی سنی اسٹیٹ سلطنت عثمانیہ ترکیہ کا انگریزوں،یہو دیوں اور یورپین مما لک کی پیہم سا زشوں اور چیرہ دستیوں کی وجہ سے شیرازہ منتشر ہو چکا تھا، عرب مما لک افتراق و انتشار کا شکارہوکر مختلف آزاد مملکتوںمیں تقسیم ہو چکے تھے،افریقی مما لک میں اٹلی ،فرانس،جرمنی اپنا نو آبادیاتی نظام مسلط کر چکے تھے ،ملک ہندوستان میں۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی نا کامی اور سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد بر طا نوی سا مراج سفید و سیاہ پر قبضہ جما چکا تھا ،نجد وحجاز کی مقدس سر زمین کو۱۹ویں کے آغاز ہی میںخاک و خون میں نہلا دیا گیا تھا، ۱۲۲۱ھ/ ۱۸۰۶ء میںآل سعود نے طا ئف، مدینہ، مکہ پر ظالمانہ حملہ کیا، مقدس مقا مات کی مسماری، علماے اہل سنت اور سادات کرام کا قتل عام اور حرمین شریفین پر نا جا ئز قبضہ ان کی تا ریخ رہی ہے، اگرچہ ۱۲۳۳ھ/۱۸۱۷ ء میں اللہ تعالیٰ نے ان کا زور توڑدیا اور ان کے شہروں کو مسما ر کر دیا اور پاک باز لشکر کو ان پر فتح نصیب ہوئی،لیکن ۱۳۴۲ھ/۱۹۲۳ء  میں جب کمال پا شا نے تر کی کے بقیہ حصہ پر غیر اسلامی قانون ر ائج کیا تو اس کے بعد حرمین شریفین کا کو ئی محافظ نہ رہ گیا ،میدان خالی پا کر انگریزوں کی شہ پر نجد کے بھیڑوں نے دو بارہ ۱۹۲۵ء کے آخر میں مملکت حجازپر فوج کشی کی ،شریف حسین والی ِحجاز گرفتار ہو کر ایک گم نام جزیرے قبرص میںنظر بند کر دیا گیااور وہیں ا س کا انتقال ہو ا۔اس کا بیٹا شریف علی چندروز کے لیے تخت حجاز پر بیٹھا ، مگر جلد ہی آل سعو د کے ہا تھوں شکست کھا کرراہ فرار اختیار کرنے پر مجبو ر ہوا ۔اس کے بعد ابن سعود نے مقدس مقامات اور اسلامی آثار کی ظالمانہ انہدامی کاروائیوں کا جو سلسلہ شروع کیا،وہ تاریخ کا انتہائی درد ناک اور خوں آشام باب ہے ۔ اس کی تفصیل ’’تا ریخ نجد وحجاز‘‘ ،ماہ نامہ رضوان،لا ہو ر جولائی۱۹۶۲ء اور دیگر کتب و رسائل میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے ۔علا مہ ابن عابدین شامی نے بھی اپنی کتاب ’’فتاویٰ شامی‘‘ میں جلد دوم ص:۴۷۸ پر چند حقائق بیا ن کیے ہیں ،مولانا بدرالدین قادری علیہ الرحمہ نے ’’سوانح اعلیٰ حضرت ‘‘ص :۱۵۰تا ۱۵۶پر وہی سچا ئیاں پیش کی ہیں ۔تر کی ،افریقہ ،حجازو نجد اورمتحدہ ہندوستان کے اس و قت کے سیا سی وعسکری حالات پر ہم نے اجمالاًروشنی ڈالی ہے ۔سیاسی اور حکومتی اتھل پتھل ،طا غو تی قوتوں کا جبرو استبداد مذہبی معمولات و معاملات میں بھی کا فی زیا دہ دخیل رہا ہے،انھیں قوتوں کے بطن سے مذہب کے نام پر اٹھنے والے فتنے بھی باہرآئے اوردنیا کے اسلامی سمندر میںطوفان بر پا کر دیا ،نجد کی سر زمین کا سب سے بڑا فتنہ وہابیت سب کا سر خیل ثابت ہوا، آل سعود کی حکومتی سر پرستی میں خوب پھلا پھولا، متحد ہ ہندوستان میں انگریزوں کی شہ پر اوران کی مالی امداد کی بدولت اسے امپورٹ کیا گیا اور اس کی تحریراًوتقریراً نشرواشاعت ہوئی،اسی کے شکم سے نیچریت،قادیانیت،اور دیگر فتنے پیدا ہوئے اورمذہب حق بازیچۂ اطفال بن گیا، ہندوستانی مسلما نوں کی حالت سیاسی  اور معاشی اعتبار سے بھی ابترتھی ،انگریز اور ہندو مل کر ان کے مفادات پر یلغار کرر ہے تھے،یہ ۱۹ویںصدی اور۲۰ویںصدی میں مسلمانوں کے عالمی حالات کا اجمالی تذکرہ ہے۔
مجدداعظم،فقیہ اسلام امام احمدرضا قادری بریلوی قدس سرہ ۱۰؍شوال ۱۲۷۲ھ/۱۴؍جون ۱۸۵۶ء کو بریلی میں پیدا ہوئے اور ۲۵؍ صفر۱۳۴۰ھ/۲۸؍ اکتوبر ۱۹۲۱ء کو ان کاوصال ہوتاہے ، اس عالم رنگ وبو میں ان کے قیام کا وقفہ سن عیسوی کے لحاظ سے ۶۵برس اورسن ہجری کے لحاظ سے ۶۸ برس ہوتاہے، ان کی مکمل سوانح سے قطع نظر راقم ان کی دینی وملی خدمات اورعلمی کمالات سے متعلق چند حقائق پیش کرنا چاہتاہے، فقہ وافتا میں ان کی مہارت، تصنیف کتب ورسائل میں ان کی سرعت تحریر ، زود نویسی اور اخاذ طبیعت کی جلوہ افروزی، تحقیق وتدفیق اورتاریخی شعور میں ان کی یگا نگت ایک مثال بن چکی ہے، اطمینان قلب کے لیے دوشہادتیں پیش خدمت ہیں ۔
بدر ملت علامہ بدر الدین قادری رقم فرماتے ہیں:
’’الغرض اعلیٰ حضرت کا علمی پایہ اتنابلند ہے کہ جلیل القدر علما فرماتے تھے کہ گزشتہ دو صدی ۱۲۰۰ھ و۱۳۰۰ھ کے اندر کوئی ایسا جامع عالم نظر نہیںآ ٓیا، موافق کاتو کہنا کیا، خود مخالفین بھی اعلیٰ حضرت کا علمی لوہا تسلیم کرتے تھے۔ ‘‘ (سوانح اعلیٰ حضرت، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی)
ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
’’آپ کی تصانیف کا شمار بروایت حضرت شیربیشہ اہل سنت لکھنوی علیہ الرحمہ ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ ائمہ متأخرین میں امام جلال الدین سیوطی مجدد قرن عاشر علیہ الرحمہ کے بعد کسی کے متعلق نہیں سنا گیا کہ وہ کثرت تصانیف میںاعلیٰ حضرت کا مقابل ہو ۔ ‘‘ ( ص : ۱۳۳ ) 
علامہ بدرالدین قادری مجدداعظم امام احمد رضا قادری قدس سرہ کے مستندسوانح نگار ہیں، انھوںنے معتبر شواہد و حوالہ جات کی روشنی میںآپ کی دستا ویزی سوانح مرتب کی ہے ،درج بالا دو شہا دتیںاسی سے ماخوذہیں،دو شواہد مزید حاضر خدمت ہیںتا کہ حقائق کی تفہیم میںجانب داری کا الزام نہ رکھا جا سکے ،دیوبندی جماعت کے مشہور عالم مولانا ابوالحسن ندوی سا بق ناظم ند وۃالعلماء، لکھنؤلکھتے ہیں:
’’ــوہ (امام احمد رضا)نہایت کثیر المطالعہ ،وسیع المعلومات اورمتبحر عالم تھے،رواںدواںقلم کے مالک اور تصنیف وتا لیف میںجا مع فکر کے حامل تھے ،ان کی تا لیفات ورسائل کی تعدادسوانح نگاروں کی روایت کے مطابق پانچ سو ہے ۔جن میں سب سے بڑی کتاب فتاوی رضویہ کئی ضخیم جلدوں میں ہے۔فقہ حنفی اور اس کے جز ئیات پر معلو مات کی حیثیت سے اس زمانے میں ان کی نظیر نہیں ملتی۔ان کے فتاویٰ اور’’  کفل الفقیہ الفاھم فی احکام قرطاس الدراھم‘‘(۱۳۲۳ھ،مکہ مکرہ) اس پر شاہد عد ل ہیں۔علوم ریاضی، ہیئت، نجوم، تو قیت، رمل، جفرمیںانھیں مہارت تامہ حاصل تھی۔‘‘(نزہۃالخواطر ، مطبوعہ دائرۃالمعارف العثمانیہ ،حیدرآباد ۔۱۹۷۰ء ص :۴۱ ج:۸)
مولانا ابو الحسن ند وی نے آپ کی تصا نیف کی تعداد پا نچ سو بتائی ہے حالاں کہ تا زہ ترین تحقیق کے مطا بق امام احمد رضا قادری کی کتب ورسا ئل اور تفسیر و حوا شی کی مجموعی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے۔ آپ کی فقہی وکلامی تحقیقات اور علوم دقیقہ میں آپ کی مہارت کاملہ کی گواہی موافقین ومخالفین سب نے دی ہے۔ تحریر کی گہرائی، مطالعہ کی وسعت، جزئیات پر کامل دسترس، حقائق ومعارف پر کڑی نگاہ، تاریخ سے اعلیٰ درجے کی شناسائی، علوم نقلیہ کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے جدید وقدیم مسائل سے بھرپور آگاہی امام احمد رضا کی پہچان ہے، ایک زمانہ ان کی تبحر علمی کا قائل رہا ہے، شبلی نعمانی کے دست راست مولاناسید سلیمان ندوی نے لکھا ہے:
’’جس قدر مولانا مرحوم کی تحریروں میں گہرائی پائی جاتی ہے اس قدر تو میرے استاذ مکرم جناب مولانا شبلی صاحب اور مولانا اشرف علی صاحب تھانوی اور مولانا محمود الحسن دیوبندی اور علامہ شبیر احمد عثمانی کی کتابوں کے اندر بھی نہیں۔ ‘‘ (ماہ نامہ ندوہ، اگست ۱۹۱۳ء)
یہ چاروں شہادتیں دعاوی کی حیثیت رکھتی ہیں، اب ہم شواہد ودلائل کی روشنی میں مذکورہ بالا دعوؤں کی تصدیق وتصویب کے لیے حقائق پیش کر رہے ہیں جو امام احمد رضا کی زندگی اور ان کی علمی وقلمی خدمات سے چنے گئے ہیں۔ اس سے قبل ایک تمہیدی گفتگو ملاحظہ کرلیں۔ مولاناسید سلیمان ندوی کی مختصر تحریر میں جو چار نام موجود ہیں وہ بھی اپنے عہد کے مشہور مصنفین میں شمار کیے جاتے ہیں، سر سید احمد خان، مولانا ابو الکلام آزاد،اور مولانا عبدالماجد دریاآ بادی کو بھی اس فہرست میں جوڑدیا جائے اور پھر بہ نظر غائر ان حضرات کی تحریر کردہ کتب ورسائل کا تجزیہ کیاجائے تو تصانیف کی تعداد کے لحاظ سے ان ساتوں میں سے کوئی بھی امام احمد رضا کے مقابل ٹھہرتا نظر نہیں آتا، اور اگر موضوعاتی لحاظ سے ان کی تحریروں کا جائزہ لیا جائے توفقط تاریخ، تذکرہ، تحقیق، تنقید، شعر وادب، سیرت، تفسیر وغیرہ علوم وفنون میںانہیںتقسیم کر کے تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جاسکتا ہے ۔آثار الصنادید اور اسباب بغاوت ہند میں سر سید کا تاریخی شعور بہ ظاہر نکھرا نظر آتا ہے مگر تفسیر قرآن میں قدم قدم پرٹھوکریں کھاتے ہیںـــ۔ سر سید مغربی تہذیب وتمدن سے کافی متاثرنظرآتے ہیں، ۱۲۸۳ھ/ ۱۸۶۶ء میں انگلینڈ جاکر جوکچھ مطالعہ ومشاہدہ کرتے ہیں اسے اپنے دماغ وفکر میں بساکرجب ۱۲۸۷ھ/۱۸۷۰ء میں ہندوستان واپس آتے ہیں تو خود ساختہ نیچری فکر پیش کرتے ہیں اور گمراہی کاایک سلسلہ شروع ہوجاتاہے ،ان کے تعلیمی نظریات میںبھی انگریزوں کی حمایت ومداخلت کا رفرما دکھائی دیتی ہے۔ حیات جاوید مولفہ مولانا الطاف حسین حالی میں یہ حقائق ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی اعظمی جو انگریزی حکومت کے خطاب یافتہ شمس العلماء اور دارالندوہ لکھنؤ کے کرتا دھرتا تھے، انھوں نے بھی سر سید کی نیچری فکر کوآگے بڑھایا، موازنہ انیس ودبیر اور شعرالعجم میںان کی تاریخی و تنقیدی بصیرت کی کافی شہرت ہوئی، مگرسیرۃالنبی میںمن مانی تاویلات اور معجزات نبوی کے انکار نے سنجیدہ علمی حلقوں میں ان کاباطن ظاہر کردیا۔شبلی نعمانی کی حدیث فہمی اورتاریخ دانی مسلسل لغزشوں کاشکاررہی ہے۔مو لانا ابوالکلام آزاد کو جواہر لال نہرو اورمسٹر گاندھی کی رفاقت اورغبار خاطر کی نثر سے کا فی تعارف ملا،ان کے تعلیمی نظریات کی بھی دھوم رہی مگر وہ وہابیت سے الحاد تک جا پہنچے،’’آزادکی کہانی آزادکی زبانی‘‘ میں یہ اعترافات پڑھے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے تفسیر قرآن لکھی اورجابجا تفسیر بالرای کے شکار ہوئے اورمن مانی تاویلات میںالجھتے رہے۔ مذکورہ مصنفین کی تصانیف کی مجموعی تعداد امام احمد رضا کی تحریر کردہ کتابوں کی ربع بھی نہیںہوتی۔
گیارہویںصدی کے کثیرالتصانیف مجددین امت اورعلمائے اہل سنت میں مجدد الف ثانی (دو درجن کتب )،محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی(۱۱۶ کتب)،علامہ میر عبدالواحد بلگرامی،شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی (ایک درجن سے زائدکتابیں)اورشا ہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہم الرحمہ کا نام لیاجائے اوران کی تصانیف کاموضوعاتی جائزہ پیش کیا جائے تو فقہ،اصول،حدیث،تفسیر، تاریخ، تذکرہ، کلام،تصوف، اوررد بد مذہباںمیں ان حضرات کی کتابیں ملتی ہیں،علوم و فنون کی دیگرشاخیں وہاںنظرنہیںآتیں، چند کاتذکرہ تو ملتا ہے،مگر مستقل تصانیف نہیں ہیں۔ فتنہ وہابیت کی سرکوبی اور تقویۃالایمانی سلسلے کی روک تھام کے لیے اولین کوشش کرنے والوں میں مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیرآبادی(اندازاً بیس سے زائد ) ،مولانا شاہ فضل رسول بدایونی(۲۲)، مولانا عبدالرحمان فاروقی، مولانا خیرالدین کلکتوی کانام سر فہرست آتاہے،اوران کی تصنیفات’’ تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ ،امتناع النظیر، سیف الجبار، المعتقدالمستند اورسیف الابرار‘‘ آج بھی لاجواب شمارکی جاتی ہیں ۔ خانوادۂ برکاتیہ ، بلگرام و مارہرہ ، خانوادۂ خیرآباد،خانوادۂ ولی اللٰہی ،اورخانوادۂ بدایوںمیںایک سے بڑھ کرجلیل الشان اورعظیم المرتبت علما و ارباب فکر دکھائی دیتے ہیںاوران کی تصانیف کو علمی دنیا میںاحترام کی نگاہ سے کل بھی دیکھاگیا ہے، آج بھی دیکھاجاتا ہے، مگر موضوعات کی رنگارنگی اور فنی تنوع ان کے یہاں بہت زیادہ نظرنہیںآتا، مختلف نایاب فنون پرمستقل تصانیف تودورکی بات ہے ۔ یہ نہ ان کی توہین ہے نہ تمسخر ، ان کا علمی کام قابل قدرہے،ان کے احسانات پوری علمی دنیاپر آج بھی باقی ہیںاور ان کی خدمات جلیلہ کے اثرات کی چمک کبھی کم نہ ہوگی۔ مگر امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ کی بات یقینااورہے، علوم نقلیہ میں دوردورتک ان کا کوئی شریک وسہیم دکھائی نہیںدیتا اورعلوم عقلیہ قدیمہ و جدیدہ میں تو وہ یکتا اوروحید عصرتھے اورہیں،مولانا ابوالحسن علی ندوی نے جن علوم کانام اپنی تحریر میںپیش کیا ہے اگر بہ طور استشہاد صرف انہیںپر بحث کی جائے تو یہ مقالہ طویل ہو جائے گا، پھر بھی اشارۃً چند حقائق پیش کیے جاتے ہیں ۔ ریاضی ، ہیئت ، نجوم ، توقیت ، رمل ، اور جفر وغیرہ علوم میں امام احمد رضا کی مہارت کا ذکر ندوی صاحب نے بہ طور مثال پیش کیا ہے ، یہ بھی حقیقت بیانی ہے ، واقعی امام احمد رضا نے ان علوم وفنون پر مشتمل مستقل رسالے تصنیف فرمائے اور ان کے اصول ومبادیات اور مسائل واحکام کو شرح وبسط کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ فقہی موضوعات تو ان کے خاص موضوعات تھے ہی ، جن علوم کے ماہرین اور کتابیں موجود نہیں تھیں ان میں بھی امام احمد رضا کی نہ صرف معلومات زیادہ تھی ، بلکہ کامل عبور حاصل تھا ، چند شہادتیں ملاحظہ کریں ۔ 
 علم ریاضی میں امام احمد رضا کی مہارت و حذاقت سے متعلق مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد مرحوم ( ۱۸۷۳ء ۔ ۱۹۴۷ء )کا مشہور واقعہ ہے ، جب وہ ریاضی کے ایک مشکل ترین مسئلے کے حل کے لیے بارگاہ رضا میں حاضر ہوئے اور پیش کردہ مسئلے کا علمی واصولی حل پایا تو بے ساختہ ان کی زبان پر یہ تاثر آیا کہ ’’ صحیح معنوں میں یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے ۔‘‘
 ( مفتی برہان الحق جبل پوری ، اکرام امام احمد رضا ، ادارۂ مسعودیہ ، کراچی ، ۲۰۰۴ء ص : ۶۰ )
پروفیسر شبیر احمد غوری( علی گڑھ) جو ریا ضی وہیئت میں محققانہ نگاہ رکھتے تھے ، انھوں نے ’’اسلامی ریاضی وہیئت کا آخری دانائے رازمولانا احمد رضا خان ‘‘ کے عنوان پر ایک تحقیقی مقالہ تحریر کیا اور امام احمد رضا کی تصنیف ’’ التعلیقات علیٰ الزیج الایلخانی ‘‘(۱۳۱۱ھ ) کے بارے میں یہ تبصرہ لکھا : ’’ میں اس کا مطالعہ کررہا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کے عقیدت مند ان کی جامعیت اور فضل وکمال کی جو تعریف کرتے ہیں وہ عقیدت مندانہ مبالغہ آرائی پر موقوف نہیں ہے بلکہ واقعہ نفس الامری ہے ۔ ‘‘     ( خیابان رضا ، مکتبہ نبویہ، لاہور ، ۲۰۰۹ء ص: ۲۹۸ )
 علم توقیت میں امام احمد رضا کی مہارت ایجاد بندہ تھی ، کیوں کہ اس فن میں علماے متقدمین کی کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے ، سوانح اعلیٰ حضرت میں ہے کہ جب حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا بریلوی ، مولانا سید غلام محمد بہاری ، مولانا حکیم سید عزیز غوث بریلوی اور مولانا سید محمد ظفر الدین قادری نے ان سے فن توقیت دیکھنا شروع کیا تو اس فن میں مستقل کوئی کتاب نہ ہونے کی وجہ سے امام احمد رضا اس کے قواعد زبانی ارشاد فرماتے اور یہ حضرات اسے لکھ لیتے ۔ مولانا سید محمد ظفرالدین قادری نے ان قواعد کو جمع کرکے اور اپنی جانب سے اس میں تشریح اور مثالوں کا اضافہ کرکے ’’ الجواھر والیواقیت فی علم التوقیت ‘‘کے نام سے ایک کتاب مرتب کر ڈالی ۔( ص : ۱۰۳ )
ایم حسن امام ملک پوری نے ’’ امام احمد رضا جدید سائنس کی روشنی میں ‘‘ کے عنوان سے سات صفحاتی ایک مضمون قلم بند کیا ، جو المیزان ، ممبئی کے امام احمد رضا نمبر میں شائع ہوا ہے ، اسی مضمون کے آغاز میں ایک جگہ لکھتے ہیں : 
’’ راقم الحروف کے پاس مذہبی معلومات کا فقدان ہے ، مادیات اور ارضیات کا قدرے مطالعہ ہے اور اپنے اس مطالعہ کی روشنی میں امام احمد رضا کے صرف ایک حصہ تصنیف ( فتاویٰ رضویہ ) کتاب الطھارۃ سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امام احمد رضا علم دین کے ہی بحر بیکراں نہیں، علم ارضیات ، مادیات ، فلکیات اور علم ریاضی وہندسہ کے بھی اتھاہ سمندر ہیں ۔ ‘‘( المیزان ، امام احمد رضا نمبر ، مارچ ۱۹۷۶ء ص : ۲۹۱) 
یہ مقالہ مزید شہادتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا ، اس لیے اب تصانیف رضا کے موضوعاتی جائزے پر مشتمل کچھ باتیں پیش کرتے ہیں ۔ مولانا سید محمد ظفرالدین قادری نے امام احمد رضا کی لکھی ہوئی ۱۳۲۷ھ تک کی کل تصانیف کی فہرست مرتب کرکے شائع کی تھی ، جس میں۵۰ علوم وفنون پر ۳۵۰ کتابوں کا تذکرہ تھا ، بعد میں اس میں ۹۶ تصانیف کا اضافہ فرمایا تو یہ تعداد ۴۴۶ تک جا پہنچی ۱۳۶۹ھ میں ملک العلماء نے ’’حیات اعلیٰ حضرت ‘‘ تحریرکی تو اس کی جلد اول میں لکھا کہ’’ درحقیقت اعلیٰ حضرت کی تصانیف چھ سو سے زیادہ ہیں ۔‘‘(ص : ۱۳)
خود امام احمد رضا نے اپنی نگارشات کی تعداد پانچ سو سے زائد لکھی ہے، ارقام فرماتے ہیں : ’’اور اب تو بحمدہ تعالیٰ اگر احصا کیا جائے تو پانچ سو سے متجاوز ہوگی ۔ ‘‘(حاشیہ ،فتاویٰ رضویہ ، طبع ممبئی ،ص : ۲۳۵ ج۲)
المیزان ، ممبئی کے امام احمد رضا نمبر میں آپ کی ۵۴۸ تصانیف کی موضوعاتی فہرست دی گئی ہے ، جس کی روشنی میں امام احمد رضا نے علم تفسیر میں ۱۱، عقائد وکلام میں ۵۴، حدیث واصول حدیث میں ۵۳ ، فقہ ، اصول فقہ ، لغت اور فرائض وتجوید میں ۲۱۴، تنقیدات میں ۴۰ ، تصوف ، اذکار ، اوفاق ، تعبیر ، اخلاق میں ۱۹ ، تاریخ ، سیر ، مناقب وفضائل ، ادب ، نحو، عروض میں ۵۵، جفر وتکسیر میں ۱۱، جبر ومقابلہ میں ۴ ، مثلث ، ارثماطیقی ، لوگارثم میں ۸ ، توقیت ، نجوم ، حساب میں ۲۲، ہیئت ، ہندسہ ، ریاضی میں ۳۱، اور منطق وفلسفہ میں ۶ تصانیف درج ہیں ۔ (ص : ۳۲۴ )
 مولانا عبد المبین نعمانی قادری نے تصانیف رضا کی ایک موضوعاتی فہرست تیار کی جو ۶۸۲کتابوں پر مشتمل ہے ۔ مولانا عبدالستار ہمدانی گجراتی نے آٹھ سو سے زائد کتابوں کی فہرست پیش کی ، مولاناریاست علی قادری نے ۹۰۰ تصانیف کی ایک فہرست تیار کی تھی ، جو کہیں گم ہوگئی اور طباعت کا مزہ نہ چکھ سکی ۔ اس سلسلے میں ایک انتہائی معتبر نام پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد نقش بندی کا ہے ، انھوں نے بھی بڑی جانفشانی اور تحقیق کے ساتھ ایک فہرست مرتب کی تھی ، ان کا ایک بیان یہاں نقل کیا جاتا ہے ، لکھتے ہیں : 
’’ آپ کی تصنیفات ، تالیفات ، تعلیقات اور شروح وحواشی کی نامکمل فہرست علامہ محمد ظفرالدین رضوی ، علامہ عبدالمبین نعمانی ، عبدالستار ہمدانی ، سید ریاست علی قادری اور راقم نے مرتب کی تھی جو پچاس سے زائد علوم وفنون میں لگ بھگ ایک ہزار ہیں ۔ ‘‘
    ( پروفیسر مسعود احمد ، چشم وچراغ خاندان برکاتیہ ، نوری مشن ، مالیگاؤں ، ص : ۷ )
ڈاکٹر مختارالدین احمد بھی ایک ہزار کے قائل نظر آتے ہیں، ’’المجمل المعدد ‘‘کا تعارف کراتے ہوئے رقم کرتے ہیں :
’’ اس رسالہ میں جو مولانا عبدالجبار حیدرآبادی کی فرمائش پر مرتب کیا گیا ، ۱۳۲۷ھ ؍۱۹۰۹ء تک کی لکھی ہوئی فاضل بریلوی کی ساڑھے تین سو تصانیف کا ذکر ہے ، اب تصانیف کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی ہے ، جو پچاس سے زائد علوم وفنون پر مشتمل ہیں ، یہ رسالہ ۱۳۲۷ھ کا مرتب کردہ ہے ، اعلیٰ حضرت اس کے بعد ۱۳ سال اور زندہ رہے اور برابر سلسلہ تصنیف وتالیف جاری رہا ۔ ‘‘        ( ماہ نامہ ،جہان رضا ، لاہور ،شمارہ نومبر ۱۹۹۵ء ص : ۳۶)
مصری محقق محترم محمد خالدثابت نے اپنی گراں قدر تحقیق ’’ انصاف الامام ‘‘میں امام احمد رضا قادری قدس سرہ کی مطبوعہ ، غیر مطبوعہ ۶۳۴ تصانیف کا تذکرہ کیا ہے ۔ (ملاحظہ کریں : انصاف الامام ،مطبوعہ ، قاہرہ ، نومبر ۲۰۰۹ء ص : ۱۳۷ تا ۱۶۰) 
ڈاکٹر امجد رضا امجد نے اپنے سہ ماہی جریدے رضا بک ریویو ، پٹنہ ، جنوری ، فروری ، مارچ ۲۰۱۲ء کا شمارہ ’’ رضویات کا اشاریہ نمبر‘‘ کے نام سے ۴۱۴ صفحات کو محیط شائع کیا تھا ، بہت سارے حقائق وہاں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔ جس میں تصانیف رضا کا موضوعاتی اشاریہ بھی ہے ، امام احمد رضا پر کتابوں کا اشاریہ اور رضویات پر لکھنے والے محققین ارباب قلم کا ابجدی اشاریہ بھی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ امام احمد رضا نے ناقابل یقین حد تک سرعت تحریرکا مظاہرہ کیا ہے اور یہ بھی یقینی بات ہے کہ ان کی کوئی تصنیف محض تاثراتی ، یا غیر استدلالی نہیں ہے ، بلکہ حد درجہ تحقیقی ، محاکماتی ، استدلالی اور معقولی ومنقولی خوبیوں سے آراستہ ہے ، ان کے موافقین و مخالفین سب نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے ۔ اخیر میں ایک حوالہ پیش کرکے اپنی بات مکمل کر دیتے ہیں ، مولانا عبد الکریم نعیمی (بنگلہ دیش ) اپنے مضمون ’’ایشیا کا عظیم محقق ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
 ’’ شعبان ۱۲۸۶ھ سے لے کر ۲۵ صفر ۱۳۴۰ھ تک پورے چوّن برس مسند افتا پر متمکن رہے اور اس عرصے میں اتنا لکھا کہ حضرت علامہ الحاج مولانا شاہ محمد حسنین رضا خان صاحب نے جب حساب لگایا تو فی دن چھپن صفحات کتابت وتحریر کے نکلے ۔ ‘‘
            (ماہ نامہ المیزان ،ممبئی، امام احمد رضا نمبر ، ممبئی ، ص : ۳۵۸)
یہ مبالغہ آرائی نہیں ہے ، واقعی امام احمد رضا کی ہزار تصانیف ایک نفس الامری حقیقت ہیں ، اس اعتبار سے امام احمد رضا بیسویں صدی عیسویں کے عظیم اور بے مثال کثیر التصانیف مصنف کہلانے کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ (محررہ : ۱۵ ؍ فروری ۲۰۱۵ء ، اتوار )