کنز الا یـمان اور عقیدۂ الوہیت ورسالت
-----n پروفیسر سید اسد محمود کاظمی
قرآن عظیم کتب مبین ہے[۱] ہر شے کا واضح بیان ہے[۲] ہر خشک و تر کی جامع [۳] اور ہر چھوٹی بڑی چیز کو سمیٹے ہوئے ہے [۴] عالمین کے لیے نصیحت ہے [۵]مکمل کتاب ہے [۶] ان خصوصیات کے ساتھ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ خالق و مالک کا بے مثل و مثیل کلام ہے۔قرآن عظیم کے کتا ب اللہ ہونے کی کیا دلیل ہے؟ ملاحظہ فرمائیے قرآن نے اتنے مشکل سوال کے جواب کیلیے نہ تو منطقیانہ و فلسفیانہ اصطلاحات کا استعمال کیا ہے اور نہ کوئی ادق اور پیچیدہ دلیل پیش کی جو عام انسان کی سوچ سے ماورا ہو ۔بلکہ انتہائی سادہ مگر وزنی دلیل پیش کی۔
وَ لَوْ کان من عند غیراللہ لوجد وا فیہ اختلافا کثیرا[۷]
’’ اور اگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا تو ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے‘‘۔
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)
خصوصیات مترجم قرآن:
مذکورہ بالا صفات قرآنیہ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جو کتاب علوم کاملہ کو اپنے سینے میں سمیٹے ہوئے ہو اس کی تر جمانی کیلیے کسی جامع العلوم ،مجمع الفہوم ہستی کی ضرورت ہے۔اس لیے کہ ترجمہ و تفسیر مرادخدا وندی پر آگاہی کا نام ہے۔
گویا مراد خداوندی نے قرآنی حروف،اشکال و نقوش کا جامہ پہنا ہوا ہے۔[۸] تو جب تک علوم قرآنیہ پر دسترس نہ ہو گی تو مراد خداوندی پر آگاہی کیسے ممکن ہے؟
نتیجتاً مترجم قرآن جگہ جگہ علمی ٹھوکریں کھائے گا اور اس کی سیاہی کی بوندیں اہل اسلام کی گمراہی کا سبب بنیں گی۔
بقول حکیم الامت مفتی احمد یا رخان نعیمی علیہ رحمتہ
’’ علمائے کرام اور فضلائے عظام کا طریقہ یہ تھا کہ قرآن کریم کے ترجمہ کے لیے اکیس ۲۱علوم میں محنت کرتے تھے۔مثلاََ نحو، معانی، بیان، بدیع، ادب، لغت، منطق، فلسفہ، حساب، جیومیٹری، فقہ، تفسیر، حد اصول وغیرہ وغیرہ۔ان علوم میں اپنی عمر کا کافی حصہ صرف کرتے تھے۔جب نہایت جانفشانی اور عرق ریزی سے ان علوم میں پوری مہارت حاصل کر لیتے تب قرآن شریف کے ترجمہ کی طرف توجہ کرتے[۹]
اعلیٰ حضرت بحیثیت مترجم قرآن:
زُلفِ یار اور ریشِ واعظ سے الجھنا ہمارا منصب نہیں۔بہر کیف یہ بات بغیر تعصب اور جانبداری کے کہی جا سکتی ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں مترجمین قرآن کی صف میں جو مرتبہ علم،ندرت فکر،علوم جدیدہ و قدیمہ پردسترس، وسعت مطالعہ، ذخیرہ الفاظ، خداخوفی، محبت، رسالت، تقوٰی و پرہیز گاری جیسی صفات جس طرح قدرت نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کو ودیعت فرمائی تھیں وہ کسی اور مترجم کے حصہ میں نہیں آئیں۔
صاحبزادہ سید وجاہت رسول قادری رقمطراز ہیں:
’’اس (کنز الایمان) کے غائر مطالعے سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ امام احمد رضا خان قادری نہ صرف یہ کہ واقعی ایک جامع العلوم شخصیت ہیں بلکہ عظمت الہی اور ناموس انبیاء ورسل کے ایک عظیم علمبردار بھی ہیں۔ترجمہ میں اردو زبان کے الفاظ ،محاورات اور ٹکسالی اصطلاحات کے انتخاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی فکر محبت الہی جل جلالہ میں غرق اور ان کا قلب عشق رسولﷺ میں سرشار اور ان کا قلم تحفظ عظمت الہی اور ناموس رسالت کے لیے برق رفتار تلوار ہے [۱۰]
اعلیٰ حضرت الشیخ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کو علوم قرآنیہ پر کیسی دسترس تھی؟ آپ کے سیرت نگار ملک العلما ء ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں ۔۔۔’’تاج الفحول،محب الرسول مولاناشاہ عبدالقادر صاحب علیہ الرحمۃکے عرس شریف میں بدایوں تشریف لے گئے۔وہاں نو بجے سے تین بجے تک کامل چھ۶ گھنٹے سورۃ والضحیٰ پر حضور کا بیان ہوا پھر فرمایا اسی سورۃ مبارکہ کی کچھ آیات کریمہ کی تفسیر میں ۸۰ جز رقم فرما کر چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اتنا وقت کہاں سے لائوں کہ پورے قرآن پاک کی تفسیر لکھ سکوں۔[۱۱]
اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رضی اللہ عنہ کی ان خدا داد صلاحیتوں کو دیکھ کر ماہر رضویات،ترجمان افکار و تعلیمات اعلیٰ حضرت محترم پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد صاحب قبلہ علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
’’وہ ایک با خبر ہوشمند اور با ادب مترجم تھا۔ترجمہ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام احمد رضا نے آنکھیں بند کر کے ترجمہ نہیں کیا بلکہ وہ جب کسی آیت کا ترجمہ کرتے تھے تو پورا قرآن ،مضامین قرآن،اور متعلقات قرآن ان کے سامنے ہوتے تھے‘‘[۱۲]
دیگر تراجم قرآن:
ایک زبان کو دوسری زبان میں منتقل کرنا خاصا مشکل امر ہے اور پھر مزید یہ کہ کلام الہی کی ترجمانی تو اس سے بھی مشکل امر ہے۔اسی لیے مترجم قرآن پر ضروری ہے کہ وہ عربی قواعد کو پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اصول و قوانین کو بھی ملحوظ رکھے۔مبادا ترجمہ قرآن کرتے ہوئے شرعی قوانین و اسلامی قواعد پر حرف آئے۔
مگر حیرت کے سمندر میں ڈوب کر ہم یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ بر صغیر پاک و ہند میں مترجمین قرآن نے اپنے ذاتی عقائد و نظریات کو پیش نظر رکھ کر صرف ظاہری ترجمہ پر ہی اکتفا کیا اور دوسرا اہم پہلو ان کی نگاہ سے اوجھل رہا کہ ظاہری ترجمہ کرنے سے وہ لوگ مترجمین کی صف میں شامل تو ہو گئے مگر انہوں نے اسلام کے بنیادی عقائد اور اصول و ضوابط کی مضبوط جڑوں پر کلہاڑا چلا دیا اور کہیں ترجمہ قرآن سے جبریوں اور قدریوں کے موقف کی حمایت کر دی۔
توحید کے علمبرداروں کے ترجمہ قرآن سے نہ توخداوند قدوس کی تقدیس محفوظ رہی اور نہ ہی رحمت کائنات علیہ الصلوۃ وا لسلام کی عظمت۔ اگر کوئی نو مسلم ایسے مترجمین قرآن کے ترجمہ کو پڑھے گا تو وہ کیا محسوس کرے گا کہ یہ اسلام کیسا دین ہے کہ جس میں ’’خدا بھی مکر کرتا ہے‘‘نعوذ با للہ ’’ دغا بھی دیتا ہے‘‘ ’’دائو بھی کرتا ہے‘‘’’بھول بھی جاتا ہے‘‘ ’’ سب فریب اس کے ہاتھ میں ہے‘‘ تو تصور فرمائیے ! خدا کے بارے میں اس کا کیا نظریہ ہو گا جو حقانیت اسلام سے متاثرہو کر اپنے مذہب کو تو چھوڑ چکا کیا خدا کے بارے میں یہ جان کر کہ مسلمانوں کا خدا مکر کرتا ہے‘‘ ’’بھول بھی جاتا ہے‘‘ ’’دائو بھی کرتا ہے‘‘ وہ اسلام میں رہے گا؟
کیا یہ مترجمین ،قرآن پڑھنے والوں کو دین اسلام کی تعلیمات پر مطمئن کر رہے ہیں؟ یادین سے ہٹا رہے ہیں؟ ۔پھر ایسے تراجم کی اشاعت تبلیغ دین ہے یا تضییع دین؟ انانیت و ہٹ دھرمی سے بڑھ کر کوئی چیز مضر نہیں۔جب ’’انسان مستند ہے میرا فرمایا ہوا‘‘کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے خود کو عقل کل اور مخزن علم سمجھ کر دوسروں کے درست عمل کی بھی تغلیط کرے تو اس سے بڑھ کر جہالت کچھ نہیں۔اور جہالت مرضیست کہ دوائے ندارد ۔
اس لیے اگر تمام تراجم قرآن کو ایک ایسے مقام پر اکٹھاکیا جائے جہاں عقیدت مندی کے بجائے ترجمہ کے لفظ لفظ پر تنقیدی نگاہ ڈالی جائے تو یہ ثابت ہو گا کہ قرآن مجید کو عربیت سے اردو میں جس طرح اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے ڈھالا ہے وہ کسی دوسرے مترجم کو نصیب نہیں ہوا۔
مترجمین قرآن نے جب قرآنی آیات کے ترجمہ میں ایسے الفاظ کا استعمال کیاجو توحید و رسالت کے منافی تھے،جن سے اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کیے جا سکتے تو اعلیٰ حضرت وہ اوّلین مترجم ہیں جنہوں نے ۱۳۳۰ ہجری میں اہل اسلام کو قرآن عظیم کا صحیح ترین ترجمہ دیا۔یاد رہے کہ کنز الا یمان شریف سے قبل مولوی عاشق الہی اور اشرف علی تھانوی کے تراجم مارکیٹ میں دستیاب تھے۔جبکہ محمود الحسن ،عبدالماجد دریا بادی اور مولوی احمد سعید دہلوی جو کہ سب کے سب دیو بندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے تھے ان کے تراجم کنز الایمان کے بعد احاطہ تحریر میں آئے۔مگر اس کے باوجود یہ مترجمین انتخاب الفاظ میں مار کھا گئے اور غیر مناسب الفاظِ قرآن کے ترجمان بن گئے۔
فاضل شہیر،نابغہ عصر،علمبردار فکر رضامفتی فیض احمد صاحب اویسی قبلہ زاد اللہ شرفہ اسی پس منظر میں رقمطراز ہیں۔’’اعلیٰ حضرت ،عظیم البرکت،امام العرب و عجم رضی اللہ عنہ نے اپنے قلم سے اسلام پر دشمنان اسلام کے تمام گھنائونے داغ دھونے میں زندگی گزار دی۔پھر وہ اب کس طرح کسی غبار آلود لفظ کو منہ لگا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کنز الایمان کی ترجمانی ہر آیت کی آواز ہے۔اور اس کا ہر مضمون اسلام کا صحیح ترجمان ہے۔چنانچہ بقول علامہ زرقانی مترجمین میں کچھ لوگ معاندین اسلام بھی ہیں جن کو ترجمہ کرنے سے غرض صرف اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنی ہیں اور بس۔لیکن اعلیٰ حضرت قدس سرہ کیلئے یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ترجمہ میں اعلیٰ حضرت قدس سرہ نے توحید و رسالت سے لے کر شریعت کے عام مسئلہ تک ہر ایک کا پورا حق اد ا کیا[۱۳]
تقابل تراجم:
قارئین کرام اب قرآن عظیم سے ایسی آیات کا انتخاب پیش کیا جاتا ہے کہ جن آیات میں دیگر مترجمین قرآن نے منصب توحید و رسالت کا پاس نہ رکھا اور من پسند ترجمے کیے اور ساتھ ہی کنز الا یمان شریف کا ترجمہ بھی پیش کیاجائے گا ۔تاکہ علم ہو سکے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہنے ان آیات کے ترجمہ پر وارد ہونے والے اعتراضات کا جواب بین السطور اردو ترجمہ میں ہی ادا کر دیا ۔
توحید باری تعالیٰ:
(۱) یخادعون اللّٰہ والذین اٰمنوا [۱۴]
٭’’دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور ایمان والوں سے‘‘ (شاہ عبدالقادر)
٭’’فریب دیتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو کہ ایمان لائے‘‘ ( شاہ رفیع الدین)
٭’’چالبازی کرتے ہیں اللہ سے اور ان لوگوں سے جو ایمان لا چکے‘‘(اشرف علی تھانوی)
٭’’وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکہ بازی کررہے ہیں‘‘(مودودی)
مذکورہ بالا تراجم قرآن کا بغور مطالعہ کرنے سے بہت سے سوالات سامنے آتے ہیں۔مثلاََ منافقین فی الواقع اللہ تعالیٰ سے دغا بازی کرتے ہیں یا اللہ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔حالانکہ یہ درست نہیں۔اس لیے کہ جو ذات علیم بذات الصدور ہے اس سے دغا ممکن نہیں ہے۔نیز منافقین کا جب یہ عقیدہ ہی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے تو انہیں اپنی منافقت میں اللہ تعالیٰ سے دغا ،فریب کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ تو پتہ چلا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دغا ،فریب ،چالبازی ممکن تو نہیں مگر منافقین ہیں کہ اپنے خیال میں دغا بازی کرنا چاہتے ہیں یہ نہیں کہ دغا کرتے ہیں۔
اب ذرا کنز الایمان شریف کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہنے آیت پر وارد ہونے والا یہ اعتراض کس حسین انداز میں ترجمہ فرما کر رفع کر دیاہے۔اور دیگر تراجم سے جو وہم پیدا ہو سکتا تھا اس کا ازالہ کیسے فرمایا:
’’فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو‘‘
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)
(۲) انّما التوبۃ علیٰ اللّٰہ [۱۵]
٭’’توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرور‘‘( شاہ عبدالقادر)
٭’’توبہ جس کا قبول کرنا اللہ کے ذمہ ہے‘‘(اشرف علی تھانوی)
٭’’اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق ہے‘‘( مودودی)
٭’’توبہ قبول کرنی اللہ کو ضرور‘‘(محمود الحسن)
اسلامی بنیادی عقائد میں عقیدہ توحید کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ خدا تعالی پر کوئی چیز واجب نہیں مگر مذکورہ آیۃ مبارکہ کے جو تراجم پیش کیے گئے ان سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ پر قبولیت توبہ لازم ہے۔اس لیے کہ جب اس پر کچھ کرنا واجب ہی نہیں تو کسی عمل کا کرنا ضروری کیسے ہو گیا؟ جبکہ کسی چیز کا ضروری کرنا اس کے وجوب کے مترادف ہے۔
قرآن حکیم کی ایک دوسری آیۃ مقدسہ میں ہے
’’و من اصدق من اللّٰہ قیلا‘‘ََ
جس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فرمان کو پورا فرماتا ہے۔ اور یہ اس کا فضل ہے نہ کہ اس پر واجب و لازم۔تو اب پہلی آیۃ مقدسہ کا مفہوم یہ ہوا کہ توبہ کی قبولیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذمہ واجب تو نہیں مگر اس نے اپنے فضل سے توبہ کی قبولیت کو لازم فرما لیا ہے اوروہ اپنے وعدہ کا تخلف نہیں فرماتا۔
اس تشریح کی روشنی میں یہ ترجمہ بھی ملاحظہ فرمائیے جس میں سرے سے یہ اعتراض وارد ہی نہیں ہوتا۔
’’وہ توبہ جس کا قبول کرنا اللہ نے اپنے فضل سے لازم کر لیا‘‘
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)
(۳) وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیہاالا لنعلم [۱۶]
٭ اور وہ قبلہ جو ہم نے ٹھہرایا جس پر تو تھا نہیں مگر اس واسطے کہ معلوم کریں۔(شاہ عبدلقادر)
٭اور جس سمت قبلہ پر آپ رہ چکے ہیں وہ تو محض اس کے لیے تھا کہ ہم کو معلوم ہو جاوے (اشرف علی تھانوی)
٭ نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ جس پرتوپہلے تھا مگر اس واسطے کہ معلوم کریں۔(محمود الحسن)
بیت المقدس اہل اسلام کیلیے قبلہ اول تھا ہجرت مدینہ کے تقریباڈیڑھ برس بعد تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کے لیے قبلہ تھا اور پھر نبی کریم ﷺ کی چاہت پر کعبہ کو قبلہ بنا دیا گیا۔اس آیت مقدسہ میں یہی پس منظر بیان ہوا ہے۔کہ تبدیلی قبلہ کا مقصد یہی ہے کہ یہ امتیاز ہو جائے کہ کون رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور کون انحراف کرتا ہے؟
اس شان ورود کے پیش نظر تراجم بالا سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبلہ کو اسلیے تبدیل کیا کہ اسے اطاعت شعاروں اور انحراف کرنے والوں کا علم ہو جائے ’’ معلوم کریں ‘‘ اور ’’ہم کو معلوم ہو جاوے ‘‘ کا یہی مفاد ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو پہلے علم نہ تھا جو آزمائش کے بعد ہوا؟ رسول اللہ ﷺ کے علم شریف کو پیمانوں میں ناپنے والے علم الہی سے کتنے مخلص ہیں یہ دیکھنا چاہتے ہیں تو مذکورہ تراجم پر ایک مرتبہ پھر نظر ڈالیے۔ممکن ہے ہمارے اس حرف اختلاف پر کوئی ہم سے یہ سوال کرے کہ کیا ’’لنعلم‘‘ کا لفظی ترجمہ ’’ہم کو معلوم ہو جاوے‘‘ یا ’’معلوم کریں‘‘ لغوی اعتبار سے درست نہیں؟تو جواباََگزارش ہے کہ اگر چہ لفظی ترجمہ اپنی جگہ درست ہے مگر مراد خداوندی پر آگاہی کے لیے بعض اوقات لفظی ترجمہ کے بجائے ترجمانی کا رنگ اختیار کرنا پڑتا ہے۔قرآن عظیم میںچند دیگر مقامات پر بھی ’’علم ‘‘مختلف جہتوں سے استعمال ہوا ہے۔جیسے
٭لمایعلم اللّٰہ الذین جاھدوا منکم ویعلم الصابرین [۱۷]
٭ولیعلم اللّٰہ الذین آمنو ویتّخذ منکم شھداء [۱۸]
٭ولیعلم اللّٰہ الذین نافقوا [۱۹]
ان جیسی متعدد آیات قرآن عظیم کی زینت ہیں جن میں دیگر مترجمین نے ایسے تراجم کیے ہیں جن سے معتزلہ کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔جن کا موقف یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو وقوع فعل کے بعد علم ہوتا ہے ۔جبکہ اہل سنت کا علم باری تعالیٰ کے متعلق نظریہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات ازلی و قدیم ہے اسی طرح اس کا علم بھی ازلی اور قدیم ہے۔
جہاں تک مذکورہ آیات کا تعلق ہے تو ان میں’’ علم‘‘ کبھی تو ابتلاء و آزمائش کیلیے مستعمل ہے۔کہیں اظہار کے معنی میں،کہیں تمیز کے معنی میں،کہیں رویت کے معنیٰ میں۔آیات ہم نے سورۃ اور پارہ کی قید سے ذکر کردی ہیں قارئین مختلف تراجم لے کر موازنہ کرسکتے ہیں کہ قرآن عظیم کے معنیٰ و مفہوم کو کس نے صحیح ادا کیا ہے اور کون راہ اعتزال کا راہی ہے۔
اب آیت مطلوبہ کا صحیح ترجمہ ملاحظہ فرمائیے ۔’’اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پرتھے ہم نے وہ اس لیے مقرر کیاتھا کہ دیکھیں‘‘
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلویرضی اللہ عنہ)
۴۔نسوااللّٰہ فنسیھم [۲۰]
٭ بھول گئے خدا کو پس بھول گیا ان کو اللہ(شاہ رفیع الدین)
٭ بھول گئے اللہ کو سو وہ بھول گیا ان کو(محمود الحسن)
٭یہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں بھلا دیا(مودودی)
جس طرح اللہ کی ذات ہر قسم کے عیب سے پاک ہے ویسے ہی نسیان سے بھی پاک ہے۔علامہ احمد ابن محمد صاوی مالکی اپنے مشہور حاشیہ میں فرماتے ہیں:
ان النسیان مستحیل علی اللّٰہ تعالی [۲۱]
مترجمین بالا نے دونوں مقامات پر ’’نسیان‘‘ کا معنیٰ بھولنا کیا ہے۔حالانکہ اگر انسان بھول جائے تو اس پر مواخذہ نہیں اور بھولنے کی نسبت خدا کی طرف کرنا محال ہے تو پھر معنیٰ کیا ہو گا؟
تفسیر جلالین میں ہے:
’’نسو اللّٰہ ‘‘ ترکوا طاعتہ ’’فنسیھم‘‘ ترکھم من لطفہ
کہ منافقین نے خدا کی اطاعت کو ترک کیا تو خدا تعالیٰ نے انھیں اپنے لطف و کرم سے محروم کر دیا۔امام صاوی علیہ الرحمۃ کی اس تشریح کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کے بتائیے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف نسیان کی نسبت کر رہے ہیں یہ اہل اسلام کو قرآن کی تفہیم بتا رہے ہیں یالفظی ترجمہ کر کے عقیدہ توحید سے کھیل رہے ہیں۔
حیرت ہے جن لوگوں کی دسوں انگلیاں توہین کے جرم قبیح سے آلودہ ہیں وہ دوسروں کے شفاف دامن پر شرک و بدعت کے دھبے تلاش کر رہے ہیں ؎
غیر کی آنکھوں کا تنکا تجھ کو آتا ہے نظر
دیکھ غافل آنکھ کا اپنی ذرا شہتیر بھی
آئیے اب تفسیری اور با ادب ترجمہ ملاحظہ فرمائیے اور اگر یاد نہ رہا ہو تو’’ جلالین ‘‘پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے۔
’’وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انہیں چھوڑ دیا ‘‘
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)
ناموس رسالت:
بخوف طوالت مقالہ صرف دو آیات مقدسات کا تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔فا ن یشا ء اللہ یختم علیٰ قلبک [۲۲]؎
٭اور اللہ چاہے تو تمہارے دل پر مہر کردے (مودودی)
٭ سو اگر اللہ چاہے مہر کر دے تیرے دل پر (محمود الحسن)
٭سو خدا اگر چاہے تو آ پ کے دل پر بند لگا دے(اشرف علی تھانوی)
تراجم بالا کے تیور ملاحظہ فرمائیے۔یو ں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مترجمین اس آیت سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ’’ختم اللّٰہ علیٰ قلوبہم‘‘[۲۳]کے بعد مہر کی جگہ اگر باقی ہے تو وہ قلب رسالت پناہ علیٰ صاحبہا الصلٰوۃ والسلام ہی ہے۔ہمارے لیے تو یہ تصور ہی نہایت بھیانک اور ہولناک ہے۔
افسوس اس بات پر ہے کہ رحمت کائنات علیہ السلام کی حیات ظاہری میں جس طرح دشمنان دین زر ہیں ،نیزے،تلواریں خرید کر آپ علیہ السلام کے قلب مبارک کوحزیں کرتے تھے۔آج وہی کام چند سکوں کی نب خرید کر اپنے گھر کی چار دیواری یا اپنے مدرسہ کے دارلحدیث میں بیٹھ کر با ٓسانی سر انجام دیا جا رہا ہے۔اگر اس آیت مبارکہ کے شان نزول پر نگاہ ڈالی جائے تو معاملہ واضح ہو جائے گا کہ یہ مہر کون سی ہے۔کفار و مشرکین نے جب رسول اللہ ﷺپر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے اعلان نبوت کر کے خدا پر جھوٹ باندھا ہے تو آقا ئے دوجہاں ﷺکو ان کی باتوں سے اذیت ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو تسلی دینے کے لیے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔اب ادب رسالت سے معمور یہ ترجمہ بھی دیکھ لیجیے جو قرآن کا بہترین ترجمان اور عظمت رسالت ﷺ کا محافظ ہے۔
’’اور اللہ چاہے تو تمہارے دل پر اپنی رحمت وحفاظت کی مہر فرمادے‘‘(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی)
۲۔ فلاتکونن من الممترین [۲۴]
٭تحقیق سو مت ہو شک لانے والا(شا ہ عبدالقادر)
٭سو آپ شبہ کرنے والوں میں نہ ہوں(اشرف علی تھانوی)
٭سو تو مت ہو شک کرنے والوں میں سے(محمود الحسن)
٭لہذا تم شک کرنے والوں میں نہ ہوں(مودودی)
قرآن عظیم کے قاری کا عام تاثر یہ ہے کہ قرآن عظیم کے ہر حکم کے مخاطب رسول رحمت ﷺ ہیں ۔جب یہ تاثر لے کر کوئی قاری تراجم بالا کو پڑھے گا تو اس کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ یہ خطاب بھی حضور ﷺ کو ہی ہے۔حالانکہ تفاسیر کامطالعہ کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قرآن عظیم میں بعض اوقات خطاب حضورﷺ کو کیا جا رہا ہوتا ہے اور مراد امت ہوتی ہے۔اسے اصطلاح میں’’ تعریض‘‘ کہتے ہیں ۔اب اگر منتخب آیت مبارکہ کا مطالعہ تفاسیر معتبرہ کی روشنی میں کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ خطاب بظاہر حضور ﷺ کو ہے مگر یہاں مراد امت ہی ہے۔تفسیر روح المعانی،تفسیر جلالین ،تفسیر کبیر ،تفسیر مدارک،اور حاشیہ الصاوی میں جلیل القدر مفسرین کرام نے بھی آیت مبارکہ کی تفسیر یہی کی ہے کہ اگر چہ بظاہر خطاب حضور نبی کریم ﷺ کو ہے مگر مراد امت ہے۔ہم نمونہ کے طور پر صرف علامہ احمد ابن محمد الصاوی المالکی علیہ الرحمۃکی وضاحت پیش کرتے ہیں۔
تفسیر جلالین میں تھا (فلاتکونن من الممترین)الشاکین فیہ والمراد بذالک التقریر للکفارکہ ممترین سے مراد شک کرنے والے ہیںاور وہ کافر ہیں۔اس کی تفسیر میں صاحب حاشیہ الصاوی فرماتے ہیں ’’یہ جو کہا جاتا ہے کہ شک کی نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کرنا محال ہے تو پھر جس چیز کا کرنا محال ہے اس سے روکا ہی کیوں گیاہے‘‘اجیب ایضاََ بانہ من باب التعریض للکفار با نہم ہم الممترون فالخطاب لہ والمراد غیرہٗ [۲۵]
جواباََکہتے ہیں کہ یہ کفار کے لیے تعریضاََ استعمال ہوا۔ظاہری خطاب تو رسول اللہ ﷺ کو ہے مگر حقیقتاََ مراد امت ہے۔اس ساری بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ خطاب میں مراد امت ہے۔اور یہ چیز تفاسیر معتبرہ کی درک سے حاصل ہوئی جس کی طرف مترجمین مذکورہ نے کوئی اشارہ نہ کیااور قاری کو اس شبہ میں مبتلا کردیا کہ اس آیت کی مراد حضور ﷺ کی ذات بابرکات ہے۔ مگر اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ نے اس تفسیری نکتہ کے پیش نظر ترجمہ ہی ایسا کیا کہ صرف ترجمہ سے ہی سارا تفسیری مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔’’تو اے سننے والے !تو ہرگز شک والوں میں نہ ہو ‘‘
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ)
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃکے ترجمہ میں ’’اے سننے والے ‘‘الفاظ کا اضافہ ہے جس سے یہ پتہ چلا کہ اس آیت کی مراد حضور نبی کریم ﷺ نہیں بلکہ عام مخاطب ہے۔اس ترجمہ میں تفسیری مفہوم بھی ہے اور عظمت رسالت علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ السلام کا دفاع بھی۔
آخر میں محمد حنیف خان رضوی صدر المدرسین جامعہ نوریہ رضویہ بریلی شریف کی زبانی مخالفین کے ایک اہم فرد امیر جمعیت اہل حدیث پاکستان استاد سعید ابن یوسف زئی کا اعتراف بھی ملاحظہ فرمائیں۔’’یہ ایک ایسا ترجمہ قرآن مجید ہے کہ جس میں پہلی باراس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ جب ذات باری تعالیٰ کے لیے بیان کی جانے والی آیتوں کا ترجمہ کیا گیا تو بوقت ترجمہ اس کی جلالت و تقدیس اور عظمت و کبریائی کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔جبکہ دیگر تراجم خواہ وہ اہل حدیث سمیت کسی بھی مکتب فکر کے علماء کے ہوں ان میں یہ بات نظر نہیں آتی اسی طرح وہ آیتیں جن کا تعلق محبوب خدا شفیع روز جزاء سید الا ولین ولا ٓخرین حضرت محمد مصطفیﷺ سے ہے یا جن میں آپ سے خطاب کیا گیا ہے تو بوقت ترجمہ مولانا احمد رضا نے اوروں کی طرح صرف لفظی اور لغوی ترجمہ سے کام نہیں چلایا بلکہ آپ کے عالی مقام کو ہرجگہ ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ترجمہ میں وہ چیزیں پیش کی ہیں جن کی نظیر علماء اہل حدیث کے یہاں بھی نہیں ملتی۔[۲۶] ’’بے شک یہ ترجمہ ایمان کا خزانہ ہے‘‘
{حوالہ جات}
[۱] النمل،آیۃ ۱،پارہ ۱۹
[۲]النحل ،آیۃ ۸۹،پارہ ۱۴
[۳] الانعام،آیۃ ۵۸،پارہ ۷
[۴] القمر،آیۃ ۵۲،پارہ ۲۷
[۵]القلم ،آیۃ ۵۲،پارہ ۲۹
[۶]یوسف ،آیۃ ۱۱۱،پارہ ۱۳
[۷]النساء،آیۃ ۸۲،پارہ ۵
[۸]شرح العقائد النسفی
[۹]علم القرآن لترجمۃ القرآن ،ص ۴،مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات
[۱۰]پیش لفظ ’’ کنز الایمان اور معروف تراجم قرآن‘‘ مطبوعہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی
[۱۱]حیات اعلیٰ حضرت ،جلد اوّل ،ص ۳۵۷ ،مطبوعہ برکاتی پبلشرز کراچی
[۱۲] اظہار مسعود’’کنزالایمان اور معروف تراجم قرآن‘‘ مطبوعہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضاکراچی
[۱۳]کنز الایمان پر اعتراضات کے جوابات ص ۱۶،مطبوعہ عطاری پبلشرز کراچی
[۱۴]البقرۃ ،آیۃ ۹،پارہ ۱
[۱۵]النساء،آیۃ ۱۷،پارہ ۴
[۱۶]البقرہ آیۃ۴۳ٍ ۱ ،پارہ ۲
[۱۷]آل عمران ،آیۃ ۱۴۲،پارہ۴
[۱۸] آل عمران ،آیۃ ۱۴۰،پارہ۴
[۱۹]آل عمران ،آیۃ ۱۶۷،پارہ۴
[۲۰]التوبۃ ،آیۃ ۶۷،پارہ ۱۰
[۲۱]الصاوی علی الجلالین،جلد اوّل،صفحہ ۵۸،مطبوعہ مکتبہ الغوثیہ کراچی
[۲۲] الشوریٰ ،آیۃ ۲۴،پارہ ۲۵
[۲۳] البقرۃ ،آیۃ ۷،پارہ ۱
[ ۲۴] الانعام ،آیۃ ۱۱۴،پارہ ۸
[۲۵] حاشیہ الصاوی علی الجلالین جلد اول ،جز ثانی ،ص ۲۱۲
مطبوعہ مکتبہ الغوثیہ کراچی
[۲۶] ماہ نامہ جہان رضا اکتوبر نومبر ۲۰۰۸ء ،ص ۲۳