کنزالایمان کے خاص سائنسی پہلو
ڈاکٹر مجید اللہ قادری ،تلخیص : رہبر مصباحی
نبی کریم ﷺ کی نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری ہے آپ نے ظاہری پردہ فرما کر دوسری دنیا کو اپنے وجود مسعود سے رونق بخشی ہے۔ اس لیے دنیا میںقیامت تک آپ کی ظاہری کمی کو علماء ربانین پورا کرتے رہیں گے۔ جو در حقیقت آپ کے ہی نائبین ہوتے ہیں۔ (العلماء ورثۃ الانبیاء) اللہ تبارک و تعالیٰ ہر زمانے میں حضور ﷺ کے نائبین کو بھی اس زمانے کے جملہ علوم و فنون میں یکتائے روز گار بناتا ہے تاکہ اگر ان سے کوئی سوال کیا جائے تو وہ ہر سوال کا جواب دے دیں ورنہ اسلام، قرآن، صاحب قرآن، اور صاحب قرآن کے بھیجنے والے پر حرف آئے گا کہ وہ نہیں جانتا (معاذ اللہ) اس لیے دنیا میں خداوند کریم ایسی عبقری شخصیات کو بھیجتا رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک شخصیت، نائب رسول اور فاسئلوا اھل الذکر کی جامع تفسیر کی شکل میں ایک ذات امام احمد رضا خاں قادری برکاتی محدث بریلوی قدس سرہٗ العزیز کی ہے۔ ان کی ۵۵؍ سالہ علمی زندگی میں جس کسی نے جس شعبہ سے جس نوعیت کا سوال کیا آپ نے اس علم کی اصطلاحات اور اس علم کی روشنی میں اس کا بھر پور نسلی بخش جواب عطا فرمایا۔ یہاں سوال و جواب کی بجائے ان کی علمی بصیرت، قرآن فہمی اور سائنسی اصطلاحات و علوم سے متعلق دو چار مثال پیش کروں گا۔
امام احمد رضا کے علوم و فنون کا مرکز قرآن حکیم ہے۔ انہوں نے اپنے ترجمہ قرآن میں اس بات کا خاص اہتمام کیا ہے کہ جس علم پر روشی پڑتی ہے اس آیت کا ترجمہ اسی علم کی مصطلحات میں کرتے ہیں۔ امام احمد رضا واحد مترجم قرآن ہیں جن کو علوم نقلیہ کے ساتھ ساتھ علوم عقلیہ پر بھی دسترس حاصل تھی۔ جن پر سو سے زائد تصنیفات متنوع زبان میں شاہد ہیں۔ اب میں چند امثال کے ذریعہ امام موصوف کی ان علوم پر دسترس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں۔ مثلا ملاحظہ ہوں۔
وسیرت الجبال فکانت سرا با o (۲۰ سورہ النباہ)
اور پہاڑچلائے جائیں گے کہ ہو جائیں گے جیسے چمکتا رہتا دور سے پانی کا دھوکہ دیتا (کنزالایمان)
امام احمد رضا کے اس ترجمہ قرآن کو پڑھ کر علوم عقلیہ کا ماہر بالخصوص علوم ارضیات و طبیعات کا ماہر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مولانا نے ’’سرابا‘‘ کا جو ترجمہ کیا ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب وہ اس عمل سے واقف ہوں۔ تیز گرمی میں ریگستانوں میں یا کسی بھی ہموار سطح پر پانی ہونے کا شبہ ہوتا ہے۔ اور جوں جوں وہ قریب جاتا ہے وہ پانی ذرّہ ہوتا جاتا ہے پھر وہ اس حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ یہ میرا دھوکہ ہے۔
امام احمد رضا ساتھ ہی ساتھ مفسرین اور ماہرین لغت سے بھی پورا پورا استفادہ کرتے ہیں
چنانچہ ملاحظہ کیجیے کہ مفسرین اور ماہرین نعت ’’سرابا‘‘ کے متعلق کیا فرماتے ہیں۔
تفسیر خازن : (فکانت سرابا) ای ھبأ منبثا کا سراب فی عین الناظر۔
ریت کے ذرات جو دور سے دیکھنے میں (پانی کی طرح) چمکتے ہیں انہیں سراب کہا جاتا ہے۔
تفسیر مدارک :- (فکانت سرابا) ای ھبأ تخیل الشمس انہ ما۔
ریت کے ذرات جو سورج کی روشنی میں پانی کی طرح چمکتے معلوم ہوں۔
مفردات القران: سراب اس کو کہا جاتا ہے کہ جب شدید گرمی میں دوپہر کے وقت بیاباں میں پانی کی طرح ریت چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ان دلائل سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ سراب ایک قسم کا دھوکہ ہے جو ریگستان میں کسی ہموار سطح پر سورج کی شعائیں پڑتی ہیں تو دور سے پانی کی موجودگی کا دھوکہ ہوتا ہے۔ امام احمد رضا نے اس حقیقت کی ترجمانی فرما کر بتا دیا کہ اللہ نے انہیں قرآن فہمی کا کتنا وسیع ادراک دیا ہے جب کہ اردو زبان کے تمام مترجمین نے ’’سرابا‘‘ کا ترجمہ صرف ریت کیا ہے۔
امام احمد رضا نے یہ ترجمہ دراصل قران پاک کی سورہ ’’القاراعۃ‘‘ میں قیامت میں پہاڑوں کی حالت کے پیش نظر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورئہ القارعہ میں ارشاد فرماتا ہے:
وتکون الجبال کالعھن المنفوش۔ (سورہ القارعہ)
اور پہاڑ ہوں گئے جیسے دھنکی اون۔ (کنزالایمان)
سورئہ المرسلت میں ارشاد قدسی ہے :
واذا الجبال نسفت ۔ (۱۰۰ سورئہ المرسلت)
اور جب پہاڑ غبار کرکے اڑا دیئے جائیں۔ (کنزالایمان)
امام احمد رضا نے سرابا کا وہ مفہوم بیان کیا ہے جو روز قیامت نظر آئے گا۔ قیامت کے دن چونکہ زلزلوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوتا جس کی وجہ سے پہاڑ سرکنا شروع ہوں گے۔ ٹوٹ ٹوٹ کر گریں گے زمیں پر تھر تھراہت کے باعث گڑھے پر جائیں گے، زمین اسی دوران اپنا لادا اگلے گی اور جب تمام لاوا ٹھنڈا ہو جائے گا تو زمین کی سطح پر ہموار ہو جائے گی، لوگ دوبارہ زندہ کرکے اس زمین پر لائے جائیں گے اور وہ سخت پیاس میں مبتلا ہوں گے تو یہ زمین دور سے چمکتی ریت کی طرح پانی کا دھوکہ دے گی۔ لوگ پانی کی طرف دوڑیں گے مگر پانی ان کو نہ مل سکے گا کیوں کہ اس وقت زمین تانبے کی ہوگی اور اس پر سورج کی شعائیں پڑنے کے باعث پانی کا گمان ہوگا۔ اس سارے منظر کے پیش نظر امام احمد رضا نے سرابا کاترجمہ نہایت ہی سائنٹیفک طریقے پر کیا ہے۔
علم ارضیات کی اصطلاح میں صرف امام احمدرضا کا ترجمہ ہی واحد ترجمہ ہے جب کہ تمام اردو زبان کے مترجمین نہ صرف علم ارضیات بلکہ کسی بھی علم کی اصطلاحات میں ان آیات کا ترجمہ نہ کرسکے۔
سورئہ النزعت کی مندرجہ ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے جس میں اللہ تعالیٰ نے زمین کی بناوٹ سے متعلق ارشاد فرمایا اور امام احمد رضا نے اس کی اصطلاح میں ترجمہ کرکے قاری کو سمجھنے میں آسانی فرمائی ہے۔
والارض بعد ذالک دحھا (سورئہ النزعت۔ ۳۰)
اور اس کے بعد زمین پھیلائی۔ (کنزالایمان)
اکثر مترجمین نے ’’دحھا‘‘ کے معنی پھیلنے کے بجائے ’’جمائو‘‘ کیے ہیں۔ جب کہ پھیلنا اور جمانا دو مختلف مفہوم رکھتے ہیں۔ جمانے سے مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ کوئی چیز تہہ بہ تہہ جمتی ہے اور اس طرح آبی چٹانیں (Sedenenstary Rocks) بنتی ہیں اور اس پر عمل دراصل پہاڑوں سے بننے یا جمانے کا تصور پیش کرتا ہے۔ اس سے بالمقابل لفظ پھیلنے سے جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ کسی چیز کے پھیلنے سے اس کا حجم (رقبہ) بڑھے۔ علم ارضیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین جب سے وجود میں آئی ہے برابر پھیل رہی ہے۔
(SWOKINS, F.S. ETAL. 1987 THE REVOLVING EARTH PAGE 153)
اور یہ عمل اسی طرح جاری ہے دنیا کے تمام بڑے بڑے سمندروں کے بیچ و بیچ ۵ تا ۶ میل گہرے پانی کے نیچے سمندری خندقیں موجود ہیں۔ یہ خندقیں ہزاروں میل لمبی ہیں۔ ان سے ہر وقت گرم گرم پگھلا ہوا لاوا نکل رہا ہے۔ جب نیا لاوا نکلتا ہے تو پہلے سے جمع شدہ لاوے کی تہہ کو دونوں جانب سرکاتاہے اور اس کی وجہ سے پورا خشک بر اعظم بھی سرکتا ہے اور سمندر پیچھے کی جانب چلا جاتا ہے۔ اور یہ عمل بہت خاموشی کے ساتھ برابر جاری رہتا ہے۔ (حوالہ مذکورہ)
بر اعظم اسی عمل کی وجہ سے برابر پھیل رہے ہیں۔ اس کی رفتار بھی مختلف ہے کوئی ہر سال ۳؍ سینٹی میٹر سمندر سے اونچا ہوتا ہے کوئی ۴؍ سینٹی میٹر۔ بر اعظم ایشیا کا بر صغیر ہندو پاک کا حصہ ہر سال ۳ اعشاریہ ۵ سینٹی میٹر اوپر اُٹھ جاتا ہے۔ سمندر چونکہ ہر سال پیچھے ہٹ جاتا ہے اور اس کے ساحلوں کا حجم ہر سال بڑھ جاتا ہے۔ اس قدرتی عمل سے زمین برابر پھیل رہی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس عمل کی نشاندہی سورئہ النزعت کی آیت میں فرمائی اور سوائے امام احمد رضا کے قدرت کے اس عمل کو سمندر کی ۶؍ میل تہہ کے نیچے کوئی اور نہ دیکھ سکا۔ اور انہوں نے قدرت کے اس عمل کو ترحجہ میں ارضیائی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے جامع ترجمہ کیا ’’اس کے بعد زمیں پھیلائی زمین کے پھیلنے اس عمل کو صرف امام احمد رضا جیسا سائنس داں ہی دیکھ سکا۔ جب کہ دیگر ترجمین اس آیت کا ترجمہ علم ارضیات کی روشنی میں نہ کرسکے۔
راقم الحروف گذشتہ ۲۵؍ سال سے جامعہ کراچی کے شعبۂ ارضیات میں علوم ارضیات کی تدریس میں مصروف ہے اس لیے میری نظر جب قرآن پر پڑتی ہے تو میں آیات قرآن میں وہ قانون تلاش کرتا ہوں جو زمین کی پیدائش اور اس کے ارتقا سے متعلق ہیں۔
مطالعہ سے یہ بات سامنے آئی کسی بھی ترجمہ قرآن میں مجھے علوم ارضیات خصوصاً سائنسی علوم سے متعلق عموماً ایسی اصطلاحات نہیں ملتیں جو ان علوم و فنون کی نشاندہی کریں۔ مثلاً ’’علم ارضیات میں یہ قانون عام ہے کہ زمین جب پیدا ہوئی تو یہ آگ کا گولہ تھی اس کے بعد یہ ٹھنڈا ہونا شروع ہوئی تھنڈا ہونے کے دوران یہ برابر ہچکور کھاتی رہی۔ یعنی اس میں تھر تھراہت تھی اور اس کو قرار نہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ زمین کے اوپر پہاڑ بننا شروع ہوئے، زمین اگرچہ اوپر سے ٹھنڈی ہوگئی مگر اس کے اندر گرم پگھلا ہوا لاوا مائع کی شکل میں موجود رہا۔ پہاڑ (آبی یا آتشی) سمندر کے نیچے بھی موجود ہیں اور سمندر کے باہر زمین کے اوپر بھی۔ اور یہ پہاڑ اسی گرم لاوا کے اوپر لنکر انداز میں جس طرح سمندری جہاز سمندر میں لنگر انداز ہوتا ہے۔ اس سمندری جہاز کو اس کے لنکر رو کے اٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کی جنبش یا تھر تھراہٹ کو پہاڑوں کے لنگر ڈال کر زمین کو روک رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ زمین ہم کو ساکن محسوس ہوتی ہے۔ جب کبھی اس توازن میں فرق آتا ہے تو ان مقامات پر زلزلے آجاتے ہیں اور بعض اوقات بڑی بڑی دراڑوں کے ذریعے وہ پگھلا ہوا لاوا اوپر آجاتا ہے کیوں کہ ان سخت پہاڑوں کے نیچے ہر جگہ لاوا موجود ہے کہیں اس کی گہرائی ہزاروں فٹ میں ہے اور کہیں اس گہرائی کئی سو میل نیچے ہے۔ زلزلے کے وقت جو تھر تھراہٹ یا جنبش ہوئی ہے زمین اپنی پیدائش کے وقت اس طرح کانپتی رہتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنا کر اس پر لنگر انداز کیا۔ اس طرح اس زمین کو سکون حاصل ہوا اس سارے عمل کو علم ارضیات میں۔
(PLATE TECTONICS) کہتے ہیں۔
(arthor holmes, 1972, prinpals. of physical. Geology. P.22)
قرآن مجید نے زمین کے متعلق کئی انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ اردو مترجمین نے ہر آیت کا ترجمہ تو کیا لیکن اس کے پیچھے جو علم کا سمندر ہے اس کو لفظی، لغوی ترجمہ کرنے والے سمجھنے سے قاصر رہے۔ وہ صرف لفظی ترجمہ کرکے آگے بڑھ گئے۔ مگر امام احمد رضا علوم دینہ کے ساتھ ساتھ علوم ارضیات کے بھی ماہر ہیں ان کی نگاہ نے آیت کے پیچھے قدرت کے اس سارے عمل کو دیکھ لیا۔ اور ترجمہ کرنے وقت ان کے لیے ایسے الفاظ کا انتخاب کیا جو علوم ارضیات کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔
سورئہ الانبیاء کی آیات کا مطالعہ کریں۔
اولم یرالذین کفروا ان السموات والارض کانتا رتقا ففتقنھما و جعلنا من الماء کل شئی حی افلا یؤمنون و جعلنا فی الارض رواسی ان تمیدبھم o وجعلنا فیھا فجا جا سبلا لعدھم یھتدون (سورۃ الانبیاء، آیت ۳۰؍ ۳۱)
’’کہا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انہیں کھولا اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان لائیں گے اور زمین میں ہم نے لنگر ڈالے کہ انہیں لے کر نہ کانپے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں رکھیں کہ کہیں راہ پائیں‘‘۔ (کنزالایمان)
وجعلنا فی الارض رواسی ان تمید بھم کے متعلق چند تراجم ملاحظہ کیجیے۔
’’کیا جو لوگ منکر ہیں انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی آسمان و زمین دونوں کا ایک بھنڈار (ڈھیڑ) ساتھ تو ہم نے (توڑکی) زمین و آسمان کو الگ الگ کیا اور پانی سے تمام جاندار چیزیں بنائیں تو کیا اس پر بھی لوگ (ہم پر) ایمان نہیں لاتے اور ہم ہی نے زمین میں بھاری بھوبھل پہاڑ (مواقع مناسب پر) رکھے تاکہ زمین لوگوں کو لے کر (کسی طرف کو) جھک نہ پڑے اور ہم نے اس میں چوڑے چوڑے راستے بنائے تاکہ لوگ اپنی منزل مقصود کو جا پہنچیں۔
(ڈپٹی نذیر احمد دہلوی۔ حمائل شریف مترجم ص ۵۱۹)
۔۔۔۔۔ اور رکھ دیئے ہم نے زمین میں بھاری بوجھ، کبھی ان کو لے کر جھک پڑے (مولوی محمودالحسن دیوبندی)
۔۔۔۔۔ اور ہم نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ بنا دیئے کہ ایک طرف ان کے ساتھ جھک پڑے۔ (ابوکلام آزاد)
۔۔۔۔۔ اور زمین میں ہم نے بھاری بھاری پہاڑ قائم کر دیئے کہ کہیں اس کو لے کر جھک نہ جائے۔ (مقبول احمد دہلوی)
سورہ الانبیاء کی ۳۱؍ ویں آیت کریمہ کی جامعیت جو امام احمد رضا کے ترجمہ قرآن میں پائی جاتی ہے وہ جامعیت دیگر تراجم میں ناپید ہے اور دیگر مترجمین قدرت کے اس طریقے کو جان ہی نہ سکے کہ پہاڑ کس طرح قائم میں اور زمین کا سکون کس طرح بر قرار ہے کیوں کہ کوئی بھی مترجم (isostatic theory) کو نہیں سمجھتا اس لیے ترجمہ میں جو بات پوشیدہ ہے ضبط تحریر میں نہ لاسکا۔ یہ صرف امام احمد رضا کی فکر کی گہرائی ہے کہ انہوں نے دو لفظوں کے انتخاب سے اس قدرتی طریقے کو ترجمے میں ظاہر کر دیا کہ ’’پہاڑ‘‘ ضرور تہہ بہ تہہ جمائے گئے ہیں یہ لنگر انداز ہیں اور یہ کھلی حقیقت ہے کیونکہ جیولوجی سے تعلق رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ پہاڑ کیوں ساکن خاموش ہے۔
دیگر تراجم میں ایک بات کہی گئی ہے کہ زمین لوگوں کے بوجھ سے ادھر سے ادھر جھک جاتی ہیں اس لیے پہاڑوں کو جمایا گیا ہے، جب کہ زمین انسانوں کی پیدائش سے ۴؍ سے ۶؍ملین سال قبل قرار پاچکی تھی۔ اگر انسانوں کے بوجھ سے ہلتی جلتی تو آج اس کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ملنا چاہے تھا کہ روزانہ ہزاروں لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں۔ در حقیقت آیت کا مفہوم جو امام احمد رضا کی نظر اور عقل نے سمجھا ہے جو علوم ارضیات سے بھی مطابقت رکھتا ہے کہ پہاڑوں کے لنگر اس لیے ڈالے گئے ہیں کہ زمین ان لنگروں کے بغیر ہچکولے کھاتی تھی اس لیے ان لنگروں سے اس کو قائم کر رکھا ہے ان تمام امثال کے بعد یہ بات اچھی طرح واضح ہوتی ہے کہ امام احمد رضا کا ترجمہ قرآن دیگر تمام اردو تراجم سے زیادہ بہتر اور سائنٹیفک توجیہات کے مطابق بھی ہے۔ امام احمد رضا مسلمان سائنسدانوں میں ان چند ہستیوں میں شامل ہیں جن کو دین کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کا مجدد تسلیم کیا جاسکتا ہے۔