کنزالایمان اورتقدیس الوہیت
-----n مولانامحمدقمرالزماں مصباحی مظفرپوری
اعلیٰ حضرت مجدداعظم امام احمدرضا قادری قدس سرہ کاترجمہ قرآن ’’کنزالایمان‘‘تراجم کی دنیامیں نہایت معتبراوراپنی نظیرآپ ہے۔لسانی وقار،ادب کی نزاکت،زبان کی چاشنی،روزمرہ کے الفاظ،اسلوب بیان کی لطافت اور اردومحاوروںکے استعمال کے ساتھ جو سب سے بڑی خوبی ہے وہ یہ کہ شان الوہیت کی پاسداری ہرجگہ اپنی بہاردکھارہی ہے جس سے دوسرے مترجمین کادامن تقریبا خالی ہے ۔مولانایوسف زئی لکھتے ہیں
’’کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن‘‘یہی ایک ترجمہ ہے جوایمان کومنورفرمانے والااور دلوں کوچمکانے والاہے۔(کنزالایمان کوئزص۱۳۵)
مفسرقرآن حضرت مفتی احمدیارخاں صاحب لکھتے ہیں’’علم قرآن کااندازہ صرف اعلیٰ حضرت کے اس اردوترجمے سے کیجئے جواکثرگھروں میں موجودہے اور جس کی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے، نہ فارسی میں ،نہ اردومیں،جس کاایک ایک لفظ اپنے مقام پرایساہے کہ دوسرالفظ اس جگہ لایانہیں جاسکتاجوبظاہرمحض ترجمہ مگردرحقیقت وہ قرآن کی صحیح تفسیراردوزبان میں روح قرآن ہے‘‘ایضا ص ۱۳۳
حضورعلامہ سیدمحمدمیاں محدث اعظم ہندکچھوچھوی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں’’یہ ترجمہ سلیس ،شگفتہ اور واں ہونے کے ساتھ ساتھ روح اور عربیت کے بہت قریب ہے‘‘۔
مفتی شمشادحسین رضوی بدایوں شریف رقم طرازہیں’’کنزالایمان‘‘واقعی کنزالایمان ہے جوذہن وفکرمیں عشق وایمان کی بالیدگی،دلوں میں لطافت ونزاکت اورروحوں میں تازگی پیداکرتاہے اسے پڑھئے توقرآنی ہدایات کے جلوے محسوس کریں گے اور تاریک قلب وجگرمیں انواروتجلیات بکھر جائیں گے(مجلہ یادگار رضاممبئی ص ۴۴)
علوم اسلامیہ پرگہری نظررکھنے والے ان عظیم اسکالرزکے اعتراف حق کے بعد آئیے چندنمونے پیش کردوں تاکہ پوری طرح یہ بات واضح ہوجائے کہ امام احمدرضاقادری قدس سرہ کاترجمہ کس قدرایمان افروز،شان الوہیت کے تمام آداب واکرام کاترجمان،فکرواعتقاد کی دنیاکوجلابخشنے والااور خدائے سبوح وقدوس کی عظمت تقدیس کا پاسبان ہے۔
ابواالاعلیٰ مودودی جنہیں اپنی اردوزبان دانی پربہت زیادہ غرہ ہے اور جواپنی فکری لطافت اور اسلوب بیان کی دلکشی کے سامنے دوسروں کوطفل مکتب سمجھتے ہیں مگرجب وہ قرآن کاترجمہ کرنے بیٹھے تواس قدر ٹھوکریں کھائیں جوشمارسے باہرہیں ۔ظاہرہے کہ قرآن کی روح تک پہنچنے کے لئے صرف علم کام نہہیں آسکتااس کے ساتھ فیضان الوہیت اور عشق رسالت کاشریک سفرہوناضروری ہے،مگریہ مقدس دولت توامام احمدرضا قادری کے دامن زندگی میں مسکرارہی ہے ۔تفہیمات حصہ اول ص ۱۳۴ پرقرآن کی آیت مبارکہ پارہ ۹،رکوع ۲ فَلَایَامَنُ مَکْرَ اللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الخٰسِرُوْنَ کاترجمہ اس طرح کیاہے۔
’’سوا للہ کی ’’چال‘‘سے وہی لوگ بے خوف ہوتے ہیں جن کوبربادہوناہے‘‘۔
دیکھئے یہاں’’ مکر‘‘کاترجمہ انہوں نے ’’چال‘‘ کیاہے اور چال اردوزبان میں کہاں استعمال ہوتاہے وہ کسی بھی صاحب فہم وفراست اور فکرمستقیم رکھنے والوں پرپوشیدہ نہیں۔اب ذرامجدداعظم کاترجمہ کنزالایمان پڑھئے لکھتے ہیں’’تواللہ کی خفی تدبیرسے نڈرنہیں ہوتے مگرتباہی والے‘‘۔اب دونوں ترجموں کو سامنے رکھ کرقارئین خودفیصلہ کریں کہ کس ترجمہ سے خدائے واحدویکتائی کی عظمت شان ظاہرہے اور کس سے تنقیص کی بوآرہی ہے۔مودودی نے لغوی ترجمہ کرکے اپنی عاقبت خراب کرلی ہے اور امام احمدرضا کاترجمہ روح تفسیرسے اتناقریب ہے کہ خودقاری کی روح جھوم جھوم اٹھتی ہے۔
پروردگارعالم کاارشادگرامی ہے اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَھُوَ خَادِعَھُمْ۔(سورئہ نساء پارہ ۵،رکوع ۱۷) زیادہ ترمترجمین نے اس آیت پاک کاترجمہ یوں کیاہے’’بے شک منافق اللہ کودھوکہ دیتے ہیں اور اللہ ان کودھوکہ دینے والاہے۔
یہ ترجمہ آداب الوہیت سے بے خبری کانتیجہ ہے۔دھوکہ یہ عیب ہے اور پروردگارعالم ہرعیب سے پاک ومنزہ ہے معلوم ہواکہ ہرجگہ قرآن کالفظی ترجمہ زیب نہیں دیتابلکہ ترجمہ کرتے وقت خداکی عظمت شان بھی پیش نظرہواور یہ فیضان امام احمد رضا قادری کے حصے میں آیا ہے آپ کا ترجمہ اتنا سلیس ،شگفتہ اور حسن زیبائش لئے ہوئے ہے کہ جہاں زبان وادب کی معراج ہورہی ہے وہیں ایمان وعقیدہ کی فضابھی معطر ہورہی ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری قدس سرہ ترجمہ کرتے ہیں
’’بے شک منافقین اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں اپنے گمان میں اور وہ ان کی تدبیر کو ناکام کردیگا ‘‘۔
دیگر مترجمین نے ترجمہ کیا کہ منافقین اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں مگر غور کرنے کی بات یہ ھیکہ کیا کوئی انسان اللہ کو دھوکہ دے سکتا ہے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ نے لفظ’’ گمان‘‘ بڑھاکر خدا کی بارگاہ میں بندہ کے عجز کو ظاہر فرما دیا اور لفظ’’ خدع‘‘ کا ترجمہ ’’تدبیر‘‘ فرما کر تقدیس کے ایسے پھول کھلائے جس کی خوشبو اعتقاد کی دنیا کو ہمیشہ عطربیز کرتی رہے گی۔
قرآن شریف کے پارہ ( ۲) اور رکوع اول کی یہ آیت مبارکہ ہے رب تبارک و تعالیٰ فرماتاہے وَمَاجَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّلِتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَااِلاَّ لِنَعْمَلَمَ مَن یَّتِّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلیٰ عَقِیْبَیْہِ ۔
مولوی اشرف علی تھانوی نے ترجمہ اس طرح کیا ہے ۔اور جس سمت قبلہ پر رہ چکے ہیں (یعنی بیت المقدس) وہ تو محض اس کے لئے تھا کہ ہم کو (یعنی اللہ کو) معلوم ہو جائے کہ کون تو رسول اللہ کا اتبا ع کرتا ہے اور کون پیچھے ہٹ جاتا ہے
تھانوی کو علم کے معنٰی،جاننا ؛ معلوم تھا اس لئے ’’لِنَعْلَمَ‘ کا ترجمہ معلوم کیا ۔اس میں جو فساد ہے وہ یہ کہ پروردگار کو بعد میں علم ہوا اس سے قبل معاذاللہ پروردگار کو بھی علم نہ تھا اس ترجمہ سے عقیدہ علم الٰہی پر کیسی کاری ضرب لگ رہی ہے وہ اہل نظرسے مخفی نہیں ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری ترجمہ کرتے ہیں
’’ ہم نے وہ اس لئے مقررکیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پائوں پھرجاتا ہے ۔آپ نے لنعم کا ترجمہ ؛دیکھیں ؛کیا ہے جو نہایت پاکیزہ صاف ستھرا اور شگفتہ ہونے کے ساتھ ساتھ عقیدے کی طہارت کا مکمل آئینہ دار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے اپنے قلم اور اپنے ترجمہ کامحور شان الٰہی کو بنایا اس لئے حسن ادب کی دلکشی بار بار اپنی طرف متوجہ کر رہی ہے اور جن لوگوں نے الوہیت کی عظمت سے صرف نظر کیا ان کے یہاں لغوی ترجمہ نے ایسا نقص پیدا کردیا جو ذات یکتائی کے مکمل منافی ہے۔
لَمَّایَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جٰھَدُوْ مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِیْنَ (پارہ ۴، رکوع ۵، آل عمران)
محمودالحسن دیوبندی نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے ’’اور ابھی تک معلوم نہیں کیا اللہ جو لڑنے والے ہیں تم میں اور معلوم نہیں کیا ثابت رہنے والوں کو ‘‘اس ترجمہ سے علم الٰہی کا انکار ہورہا ہے یعنی لڑنے والے یا ثابت رہنے والے کون ہیں ابھی تک پروردگار عالم کو معلوم نہیں خدائے ذوالجلال کی طرف عدم علم کی نسبت صرف جرم ہی نہیں بلکہ اپنے ایمان سے ہاتھ دھولیناہے۔اب ذرامجدداعظم امام احمدرضا قادری کاترجمہ پڑھئیے کس قدر نکھراہواترجمہ ہے کہ فکروعقیدہ کی پاکیزگی کے ساتھ قدرت کامنشابھی پوری طرح واضح ہورہاہے ۔اعلیٰ حضرت ترجمہ کرتے ہیں ’’اورابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کاامتحان لیااورنہ صبرکرنے والوں کی آزمائش۔‘‘
قرآن پاک میں کچھ الفاظ ایسے آئے ہیں جوخداورسول کے لئے بھی استعمال ہوئے ہیں اور منافقین کے لئے بھی مگرسیاق وسباق کے اعتبارسے ان کے معانی بدلتے رہیں گے،مثلاخدع، مکر اور علم جوابھی مذکورہ آیات میں گزرے اور اس کے علاوہ بہت سے الفاظ ہیں جواسی طرح استعمال ہوئے ہیں لہذا مترجمین پرضروری ہوجاتاہے کہ وہ جس زبان میں ترجمہ کررہے ہیں اس کے آداب اور محل استعمال کوبھی نظروں میں رکھیں،صرف لغوی ترجمہ سے پوری وضاحت ہوسکتی ہے اورنہ ہی فرق مراتب قائم رہ سکتاہے اس لئے جنہوں نے لغوی ترجمہ کیاانہوں نے قدم قدم پرٹھوکریں کھائیں اور ان کے ترجموں میں اس قدر غلطیوں نے راہ پالی کہ وہ اپنے ایمان وعقیدے کی خوبصورت دنیاکوبھی نہیں بچاسکے۔مگراعلیٰ حضرت مجدداعظم امام احمدرضا قادری قدس سرہ نے ترجمہ کرتے وقت صرف لغت ہی نہیں اس زبان کے تقاضے،الفاظ کے انتخاب،شان کبریائی کی عظمتیں اوراس کے آداب واحترام کوبھی سامنے رکھایہی وجہ ہے کہ تراجم کے ہجوم میں جومقبولیت وآفاقیت ترجمہ کنزالایمان کو ملی دیگرتراجم اس عظمت سے محروم ہیں۔ڈاکٹر مسعوداحمدلکھتے ہیں
(اعلیٰ حضرت کاترجمہ)نہ کسی ترجمے کا ترجمہ ہے اور نہ ترجموں کی ترجمانی یہ توبراہ راست قرآن سے قرآن کا ترجمہ ہے(مقالات رضویہ ص۳۹)