عصری اداروں کے تعلیم یافتگان کا فکری ارتداد
توفیق احسنؔ برکاتی ، ممبئی
ایک زمانے سے یہ نعرہ بلند کیا جارہا تھا کہ علما کو دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم سے بھی بہرہ مند ہونا چاہیے تاکہ وہ موجودہ عہد کے تقاضوں کی تکمیل کرسکیں اور عصری حالات کے مطابق خود کو تیار کرکے تبلیغ دین کا فریضہ نبھائیں ، بصورت دیگر دین کے پیغامات کی ترسیل ذرا مشکل ہوگی اور کئی طبقات تک یہ پیغام پہنچے گا ہی نہیں ۔ اور یہ جملہ کئی مضامین میں نظر سے گزرتا رہا کہ ہمارے اندر اصالت کے ساتھ عصریت کا ہونا از حد ضروری ہے ۔ اب دینی درس گاہوں میں بھی عصری تعلیم کی وکالت ہونے لگی اور انگریزی کے ساتھ کمپیوٹر کی تعلیم کا نظم کیا گیا ، یہاں تک تو ٹھیک تھا کہ یہ سب کچھ مدارس کی چاردیواری میں کیا جا رہا تھا اور طلبۂ مدارس کی ذہن سازی ہورہی تھی ، ان کے دل و دماغ میں یہ جذبہ بھرا جارہا تھا کہ متدین علما ومحققین کی تحقیقات وفتاویٰ مبنی بر حقیقت ہیں اور مسائل کی دریافت اور فتویٰ نویسی میں ان سے استفادہ کرنا ہم پر لازمی ہے ، کہ ان میں دین کی اصل روح بھی موجود تھی اور عصری احوال کا رنگ بھی تھا ، اور’’من لم یعرف احوال زمانہ فھو جاہل‘‘ کا کلیہ بھی شامل تھا ۔اگر فارغین مدارس کئی زبانوں کے ماہر ہوں گے تو ملک وبیرون ملک خدمت دین وسنیت کا کام کرسکیں گے اور ان زبانوں کے جاننے والوں کو مذہب حق کا درست تعارف مل سکے گا، اس سے اسلام کا دائرہ وسیع ہوگا اور ایک بڑے حلقے تک اسلام کی تعلیمات پہنچ جائیں گی ۔ یہ بہت اچھی نیت تھی اور بہت مبارک جذبہ تھا اور اس کے نتائج بھی اچھے برآمد ہورہے تھے ۔ لیکن پھر ایک ماحول بنا کہ دینی مدارس کے فارغین یونیورسٹی اور کالج میں باضابطہ اقامت پذیر رہ کر عصری علوم میں ڈگریاں حاصل کریں ، یہ رجحان اتنا زور پکڑ گیا کہ اب ہر بڑے دینی مدرسے میں نو یا آٹھ سالہ کورس مکمل کرنے کے بعد فاضلین عصری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے لگے ، بی اے ، ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ملنے لگیں اور ان کا دانش انھیں مہمیز کرنے لگا کہ اب ہمارے اندر دانش وری آرہی ہے اور ہمارا علم بڑھ رہا ہے، یہ نظریہ بھی قابل قدر تھا ، لیکن اسی پر بس ہوتا تو بہتر تھا ، مگر ایسا ہوا نہیں ، یہاں آنے کے بعدان کی زبان و قلم نے مسلسل اس طرح کے جملے دہرائے کہ مدارس کی زندگی ایک مینڈک کی زندگی ہے اور کچھ تو یہاں تک کہہ گئے کہ ہمیں علم تو اب آیا ہے ، مدرسے میں رہ کر ہم نے زندگی کے اتنے برس یوں ہی گزار دیے ، کاش ہم ایسا نہیں کرتے !! انھیں مدرسوں کی وہ زندگی فرسودہ اور دقیانوسیت سے مملو دکھائی دینے لگی ، یہی نہیں بلکہ اساتذہ کی سختیاں ظلم ،آزادی کی راہ میں رکاوٹ اورنصاب ونظام تعلیم انتہائی فرسودہ نظر آنے لگا۔وہ یہ بھول گئے کہ انھیں اساتذہ نے ہمیں قلم پکڑنا سکھایا ہے ، ہماری زبان کو بولنے کا سلیقہ بخشا ہے ، ہمیں ان کا احسان مند رہنا چاہیے ، ان کی زندگی اور آگہی دونوں قابل رشک ہے ، ان کی تعلیم وتدریس میں خلوص کی ترنگیں موجودہیں ،انھوں نے ہمیں دین کی اصلیت سکھائی ہے ، قرآن فہمی اور حدیث دانی کی جو بھی سوجھ بوجھ ملی ہے انھی کی تعلیم کا نتیجہ ہے ، بلکہ ایمان کی حلاوت اور سیرت وسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آب زلال کا مزہ بھی ہمیں انھی اساتذہ کے ہاتھوں نے دیا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا اور ہمیں کسی مدرسے کی چاردیواری میں رہنے کا موقع نہ ملتا اور آغاز ہی سے ہم عصری ادارے میں تعلیم حاصل کرنے لگتے تو کیا ہوتا ، کیا ہم ایسے ہوتے ، کیا ہماری سوچ میں خدمت دین کا جذبہ موجود ہوتا ، کیا ہماری فکری اڑان ایسی ہوتی ؟
یہیں سے ان کے اندر آزاد خیالی نے جنم لینا شروع کیا اور عصری اداروں کے آزادانہ ماحول نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور انھیں اپنا ماضی بالکل بے ہنگم نظر آنے لگا ، ان کے اندر خدمت دین کا سچا جذبہ کیا بیدار ہوتا ، انھوں نے تفہیم دین کے نئے زاویے مقرر کرنا شروع کر دیے اور مقلدانہ مزاج کو تبلیغ دین کی راہ میں سنگ راہ سمجھا جانے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں فتاویٰ کے مستند مجموعے ، مؤقر علما وفقہا کی تحقیقات غیرضروری سرمایہ ، مجتہدین کی کاوشیں فرسودہ اور مشائخ کی تلقینات جبر و استبداد لگنے لگیں ، ان کا ذہن باغیانہ اور ان کا قلم آزاد خیالی کا ملغوبہ بن گیا اور ان کی زبان وبیان میں بلا وجہ کی اجتہادی کوشش دکھنے لگی ،اور وہ ماضی قریب و بعید کے جید علماے ربانیین اور محققین فقہا کی فقہی بصیرت پر سوالیہ نشان قائم کرنے لگے، کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہوگیا ہے ؟ کیا عصری تقاضے کچھ بھی نہیں ہیں ؟ یا ہم نے تقلید جامد کی روش اپنائی توعلمی وفکری زندگی کی دوڑ میں کافی پیچھے رہ جائیں گے ۔ یہ اور اس طرح کے کتنے ہی سوالات قائم کرکے انھوں نے اپنے لیے ایک ماحول تیار کیا اور پھر وہ گل فشانیاں اور موشگافیاں ہوئیں کہ اللہ کی پناہ !!!
اگر میری بات پر یقین نہ ہو تو گزشتہ پندرہ برسوں کے دینی مجلات میں شائع اس طرح کی اسلاف بیزار تحریریں پڑھ لیں ، حقائق خود بحود سامنے آجائیں گے ۔ بلکہ ان حضرات نے تو مشاجراتِ صحابہ پر بھی بحثوں کا دروازہ کھول دیا ہے ، مذہب اہل سنت کے مسلمات پر بھی ان کے طنزیہ جملے آپ کو مل جائیں گے ، نور محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق پر بھی ان کی جدید تحقیقات نظر نواز ہوں گی ، سرکار علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جسم بے سایہ پر ان کی مجتہدانہ آزاد روی دکھائی دے رہی ہے ، طلبہ مدارس کی کردار کشی اور علمائے ذوی الاحترام کی بے وقعتی کا ہوّا بھی انھوں نے ہی کھڑا کیا ہے ، ہند و بیرون ہند قائم مجالس شرعی پر بھی ان کی نگاہیں ہیں ، ان کے دستورالعمل میں موجود شقوں پر بھی انھیں اعتراض ہے ، ان میں حاضر ہونے والے مندوبین میں عصری دانش گاہوں کے فیض یافتہ افراد کی عدم شمولیت بھی ان کی نگاہ میں کھٹکتی ہے، انھیں فتویٰ دینے کا حق کیوں نہیں ہے ؟ یہ آواز بھی دبے لفظوں میں اٹھائی جارہی ہے ، مسلکی تصلب کو بھی یہ لوگ تشدد اور غیر دانش مندانہ اقدام تصور کرتے ہیں ، انھیں یہ شکوہ بھی ہے کہ فقہیات میں ان کی رائے کیوں نہیں لی جاتی؟ ان سے فتویٰ کیوں نہیں طلب کیا جاتا ؟انھیں امامت کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا ہے؟ حالاں کہ دوسری جگہوں پر وہ ڈاکٹر اقبال کا یہ مصرع پیش کرتے نہیں تھکتے :’’ اس کو کیا سمجھیں گے یہ دو رکعت کے امام‘‘- حقائق اور بھی ہیں ، لیکن اتنے پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے ۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ عصری اداروں کے تعلیم یافتگان کا فکری منہج کیا ہے اور ان کی آزادانہ روی انھیں کس منزل تک پہنچائے گی ۔ یہ حکم اکثری ہے ،اس کے مثتثنیات بھی ہیں ، جہاں اساتذہ اور علما کا ادب واحترام دکھائی دیتا ہے ، وہ اسلاف کے عقیدت مند بھی ہیں اور دینی مدارس کی افادیت کے منکر نہیں ہیں-
پیش گوئی کرنا راقم کا شیوہ نہیں ، لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ اسی روش کی بنیاد پر سر سید احمد خان اور اس کے متبع مولانا شبلی نعمانی نے نیچریت کا نظریہ گڑھا تھا ، اسی مزاج نے ابوالکلام آزاد اور عبدالماجد دریابادی کو ملحدانہ افکار اپنانے پر آمادہ کیا تھا ، ابوالاعلیٰ مودودی اورخود ساختہ مجتہد الرسالہ جریدے کے مدیر مولانا وحید الدین خان کو کس چیز نے یہاں تک پہنچایا؟ کیا کبھی ہم نے اس نکتے پر غور کیا ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ -اگر سنجیدگی کے ساتھ مذکورہ افراد کے احوال کا مطالعہ کیا جائے تو قدر مشترک جو چیز نظر آئے گی وہ یہی فکری ارتداد اور آزاد خیالی ہے -ہم یہ کیوں نہیںسوچتے کہ فقہی وکلامی مسائل شاعری نہیں ہیں ، یہاں حقائق و معارف ہی قبول کیے جاتے ہیں ، بلندیِ خیال اور تخیل نہیں چلتا ، اسی لیے فقہیات کو شاعرانہ کر وفر سے دور رکھا گیا ہے ، تفسیر بالرائے کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے۔ فقہی جزئیات کا استحضار اورقرآن واحادیث کا گہرا شعور فتویٰ نویسی کے لیے کیوں لازم کیا گیا؟ احوال زمانہ کی واقفیت اور بدلتے عہد کے تقاضوں کی پہچان کیا صرف عصری اداروں میں تعلیم حاصل کرنے سے آتی ہے ؟ فقہی سمیناروںمیں جو محققین شرکت کرتے ہیں کیا وہ احوالِ زمانہ سے نا آشنا ہوا کرتے ہیں ؟ تو پھر جدید مسائل کا حل کیسے سامنے آتا ہے اور امت مسلمہ حرج میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہتی ہے ۔ یہ سوچ دراصل ایک خیالِ خام کی زائیدہ ہے جو اپنے دائرے سے اوپر اٹھ کر کچھ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی ، اس نے ہی یہ سمجھایا ہے کہ دینی مدارس میں طالب علم گھٹ گھٹ کے جیتا ہے ، محدود ذہنیت کا مالک ہوتا ہے ، اس کے اندر شعور وآگہی کا فقدان ہوتاہے ، وہ ایک کامیاب زندگی گزارنے کا اہل نہیں ہوتا اور ہم باشعور ہیں ، عصری آگہی کی دولت سے مالامال ہیں ، ہم زمانے کے تقاضوں کی تکمیل کا حق اپنے لیے محفوظ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس فکر کو عام کرنے کے لیے شوشل میڈیا کا سہارا بھی لے رکھا ہے اور بحث و مباحثہ کا ایسا بازار گرم ہے کہ کیا کہا جائے اور کیا لکھا جائے ؟ ان کی ہاں میں ہاں ملانے میں خالص دنیوی تعلیم یافتہ طبقے کا بھی بہت بڑا رول ہے ، کیوں کہ انھیں بھی مدارس کی دینی تعلیم بالکل بھی غیر اہم اور فرسودہ لگتی ہے ، مدارس میں طلبہ کو ملنے والے خوردونوش کی اشیا ، رہائش کی مشکلات کو اسی طبقے نے زیادہ بدنام کیا ہے ، اسلاف بیزار تحریریں اور خود ساختہ افکار تصوف انھیں اتنا بھاتا ہے کہ اس کے خلاف لکھنے یا بولنے والوں کی ناک میں دَم کرنا یہ اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں -
شوشل میڈیا پر ہمارے کرم فرما بہت سے فاضلین مدار س بھی کافی سرگرم ہیں اور ہر مسئلے میں اپنی رائے ضرور دیتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ اگر وہ ہر جگہ اپنی موجودگی در ج نہیں کراتے تو دنیا کیا رخ اختیار کر لے گی اور دین کا کتنا بڑا نقصان ہوجائے گا ۔ بہت سارے لوگ تو کوئی سوال قائم کرکے فیس بک مفتیوں اور محققوں سے اس کا جواب طلب کرتے ہیں ، وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سوال کہاں کہاں جا سکتا ہے؟ پرائیویسی کا ان ذرائع میں کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ انھیں چاہیے کہ کسی عالم یا مفتی کو خط لکھ کر یا فون کرکے اپنی الجھنوں کا ازالہ کرلیں اور اطمینان قلبی حاصل کرلیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کسی بڑی شخصیت کی تضحیک یاخودسائل کی رسوائی پر ختم ہوجاتا ہے اور سوال اپنی جگہ باقی رہتا ہے ۔ہاں مذہب کے بد ترین دشمنوں کو خوب فائدہ ہوتا ہے اور وہ موقع ملنے پر وہی سوال ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں ۔
خدارا !! یہ طرز عمل بدل ڈالیں اور زمین پر اتر کر اُمت مسلمہ کے مسائل کا ادراک کریں اور ان کا حل پیش کریں ، یہ دین کی خدمت کہلائے گی اور آخرت میںوزن دار ہوگی۔ایک بات اور یاد رکھیں کہ جب یہ کلیہ ہر کوئی مانتا ہے کہ تقسیم ِکار ہونا چاہیے ، ہر شخص کو نہ ہر موضوع پر اظہار خیال کرنے کا حق ہے اور نہ ہر کوئی ہر فن کا ماہر ہوتا ہے ، ایسا ناممکن نہیں لیکن نادر ضرور ہوگاکہ اللہ ہر شے پر قادر ہے ، وہ ایسا کرسکتا ہے کہ کسی میں ساری خوبیاں جمع فرمادے ۔ عرض مدعا یہ ہے کہ ہم اس اصول کو بیان تو کرتے ہیں لیکن ہمارا عمل واقدام اس کے خلاف ہوتا ہے ، آپ نے عصری تعلیم حاصل کی ہے تو جو علوم وفنون آپ نے پڑھا ہے ، اس میں اظہار خیال کی جرأت کیجیے ، ان موضوعات پر لکھیے ، بولیے ، سائنسی علوم میں مہارت حاصل کی ہے تو اس میں تحقیق کیجیے ، مضامین لکھیے ، خطاب کیجیے ، مباحثہ کیجیے ، لیکن یہ ضرور خیال رہے کہ اسلام کو سائنسی دماغ سے مت حل کیجیے ، ہاں سائنس کو مسلمان بنا سکتے ہیں تو ایسا ضرور کیجیے ، مگرعام طور پر ایسا ہوتا نہیں ۔اسی طرح آپ تحقیق وتاریخ کے آدمی ہیں ، شعر وادب میں کمال ہے تو ان موضوعات کو برتیں ، تاریخی مضامین اور تحقیقی مقالات تحریرکریں ، ادبی کمال والے مذہبی ادب متعارف کرائیں ، مگر ایسا بہت کم ہوتا ہے ۔ ہم نے کتابوں یا ادبی رسائل و جرائدمیں آزاد خیال ادیبوں اور نام نہاد محققوں کا جو نظریہ پڑھا ہے اسے ہو بہو نقل کردیتے ہیں اور وسعت مطالعہ کا رعب قارئین پر بٹھا کر رخصت ہوجاتے ہیں ۔ ان کتب و رسائل میں آزادیِ اظہار رائے یا ادب وتحقیق کے نام پر جو طوفان بد تمیزی و بد تہذیبی ہوتا ہے ہم اس میں بہہ جاتے ہیں اور نتیجتاً فکری ارتداد کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ کاش ہم ایسا نہ کرتے !!، لیکن یہاں ہماری آگہی مردہ ہوجاتی ہے ، اورہمارا شعور زنگ آلود ہوجاتا ہے -یاد رکھیں!علم دین اللہ ورسول جل جلالہ وصلی اللہ علیہ وسلم کے تعارف کا ذریعہ ہے ، اس کے بغیر نہ ہم اسلام پر عمل کرسکتے ہیں ، نہ دنیا میں اسے متعارف کراسکتے ہیں ، اس علم میں روحانیت پنہاں ہے ،شریعت و طریقت کاچشمہ اسی کی پاک زمین سے پھوٹتا ہے اور عصری آگہی کے ذریعے یہ جام شیریں اگر آپ دنیا کو پلا سکتے ہیں تو ایسا ضرور کیجیے ، لیکن اس میں زہر، ہرگز نہ ملائیے -
n n