اعلیٰ حضرت کی رد شیعیت میں خدمات
کااعتراف علماے دیوبند کے قلم سے
میثم عباس قادری رضوی
massam.qadiri@gmail.com
امامِ اہلِ سُنّت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق دیوبندی فرقہ کی جانب سے یہ پروپیگنڈا کیاجاتاہے کہ سیدی اعلیٰ حضرت شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی نے کتاب ’’مطالعۂ بریلویت ‘‘ میںدجل و فریب سے کام لیتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کو شیعہ نظریات کا حامل قرا ر دیتے ہوئے آپ پر شیعہ ہونے کی تہمت لگائی ہے۔ یہی راگ دیگر دیوبندی مولفین، مقررین ومناظرین بھی الاپتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن جب دیوبندی علما سے ان کے اس موقف پر دلیل طلب کی جاتی ہے تو (چوںکہ یہ علمی دلائل سے یکسرتہی دامن ہوتے ہیںاس لیے سواے دجل وفریب کے )کچھ بھی ان کے پاس نہیں ہوتا۔
کھلا چیلنج:
آج بھی تمام دنیاے نجدیت و دیوبندیت کو میرا یہ کھلا چیلنج ہے کہ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا شیعہ کی ہم نوائی میںکوئی ایک ایسا عقیدہ بیان کریں جس کا علماے اسلام میں سے کوئی بھی قائل نہ ہو۔ان شاء اللّٰہ تعالٰی یہ ایسا ثابت نہیں کر سکیں گے بلکہ قارئین کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ دیوبندی فرقہ ہی کے کئی علما اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ سیدی اعلیٰ حضرت نے شیعہ کا بہترین رد کیا ہے، اس کے علاوہ دیوبندی علما اعلیٰ حضرت کو تعظیمی و دعائیہ کلمات سے بھی یاد کرتے ہیں۔اعلیٰ حضرت پر شیعیت کی تہمت لگانے والے دیوبندی علما کے اس مکروہ پروپیگنڈے کی وجہ سے میں نے مناسب سمجھا کہ ان کے اس بے بنیادالزام کاجواب بھی علماے دیوبندہی کے حوالہ جات کو جمع کر کے دے دیا جائے جس سے سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ پر شیعیت کی تہمت کا جھوٹ ہونا خود علماے دیوبند کے قلم سے ہی ثابت ہوجائے گا ان شاء اللّٰہ۔
۱۔شیعیت کے خلاف اعلیٰ حضرت نے اکابرعلماے دیوبند سے سخت فتویٰ دیا ہے:قاضی مظہرحسین دیوبندی
(۱) مسلکِ دیوبند کے مشہور عالم دین مولوی قاضی مظہر حسین دیوبندی صاحب نے ردِ شیعیت کے متعلق اعلیٰ حضرت کے فتویٰ کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ شیعہ کے خلاف سیدی اعلیٰ حضرت نے اکابر ِدیوبند سے سخت فتویٰ دیا ہے۔قاضی صاحب لکھتے ہیں :
’’حساس بریلوی علما بھی شیعہ جارحیت کے مخالف ہیںاور بریلوی مسلک کے امام جناب مولانا احمد رضا خاں مرحوم نے روافض کے خلاف اکابر علماے دیوبند سے بھی سخت فتویٰ دیا ہے چناںچہ آپ کا ایک رسالہ ’’رد الرفضہ‘‘ہے جس کے شروع میں ہی ایک استفتا کے جواب میں لکھتے ہیںکہ’’ رافضی تبرائی جو حضراتِ شیخین صدیق اکبر وفاروقِ اعظم رضی اللّٰہ عنہماخواہ ان میں سے ایک کی شانِ پاک میں گستاخی کرے اگرچہ صرف اسی قدر کہ انھیں امام وخلیفہ برحق نہ جانے کتب معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اور عامہ ائمہ ترجیح وفتویٰ کی تصحیحات پر مطلقاً کافر ہے۔‘‘ (درمختار،مطبع ہاشمی ،صفحہ ۶۴میں ہے الخ) بحرالرائق کے حوالہ سے لکھتے ہیں:’’صحیح یہ ہے کہ ابوبکر یا عمر رضی اللّٰہ عنہماکی امامت وخلافت کا منکر کافر ہے۔‘‘ (صفحہ ۶)’’شیخین رضی اللّٰہ عنہماکو بُرا کہنا ایسا ہے جیسا نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلّمکی شان میں گستاخی کرنا اور امام صدر شہید نے فرمایا جو شیخین کو بُرا کہے یا تبرا بکے کافر ہے۔‘‘ (صفحہ۱۲) ’’شفا مولفہ قاضی عیاض محدث کے حوالہ سے لکھتے ہیں: اور اس طرح ہم یقینی کافر جانتے ہیں ان غالی رافضیوں کو جو ائمہ کو انبیا سے افضل بتاتے ہیں۔‘‘ (صفحہ ۲۱)
(ماہ نامہ حق چار یار، لاہور، جون۔جولائی ۱۹۹۰ء، صفحہ۵۰)
(۲) قاضی مظہر حسین دیوبندی صاحب اپنی کتاب ’’یادگارِ حسین ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’بریلوی اہلِ سُنّت کے علما ماتم و تعزیہ وغیرہ کو ناجائز اور حرام ہی قراردیتے ہیں۔‘‘
(یادگارِ حسین، صفحہ ۱۴،شائع کردہ تحریک خدام اہلِ سُنّت ، چکوال ضلع جہلم پاکستان، طبع دوم، ذی الحجہ ۱۴۰۱ھ)
(۳)اسی کتاب میں قاضی صاحب مزیدلکھتے ہیں :
’’بریلوی مسلک کے امام حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب مرحوم کے فتاویٰ میں ہے (الف)محرم شریف میں مرثیہ خوانی میں شرکت جائز ہے یا نہیں؟ (الجواب) ناجائز ہے کہ وہ مناہی اور منکرات سے مملوہوتے ہیںواللہ تعالیٰ اعلم۔(عرفانِ شریعت، صفحہ۱۵)(ب) تعزیہ بنانا اور اس پر نذر نیاز کرنا ، عرائض بہ امید حاجت براری لٹکانا اوربہ نیت بدعت حسنہ اس کو داخل سنت جاننا کتنا گناہ ہے ؟ (الجواب)افعالِ مذکورہ جس طرح عوام زمانہ میں رائج ہیں بدعت وممنوع وناجائز ہیں انھیں داخلِ ثواب جاننااور موافق شریعت اور مذہبِ اہلِ سُنّت ماننا ا س سے سخت تر وخطاے عقیدہ جہل اشد ہے۔‘‘ (رسالہ تعزیہ دار ی، صفحہ۱۵)(ج) تعزیہ آتادیکھ کر اعراض ورُوگردانی کریں اس طرف دیکھنا ہی نہ چاہیے۔ (عرفانِ شریعت ،حصہ اول، صفحہ ۱۵)‘‘
(یادگارِ حسین، صفحہ۱۸، ۱۹،شائع کردہ تحریک خدام اہلِ سُنّت، چکوال ضلع جہلم پاکستان، طبع دوم ذی الحجہ ۱۴۰۱ھ)
(۴)قاضی مظہر حسین دیوبندی صاحب رد شیعیت میں لکھی گئی اپنی کتاب ’’بشارات الدارین‘‘میں بھی لکھتے ہیں:
’’مسلک بریلویت کے پیشوا حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب نے بھی ہندوستان میں فتنۂ رفض کے انسداد میں بہت مؤثر کام کیا ہے اور روافض کے اعتراضات کے جواب میں اصحابِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلّمکی طرف سے دفاع کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ منکرینِ صحابہ رضی اللّٰہ عنہمکی تردید میں ’’ردالرفضہ‘‘ ’’ رد تعزیہ داری‘‘ ’’الادلۃ الطاعنہ فی اذان الملاعنہ‘‘ وغیرہ آپ کے یادگار رسائل ہیں جن میںسنی شیعہ نزاعی پہلو سے آپ نے مذہبِ اہلِ سُنّت کا مکمل تحفظ کردیا ہے۔‘‘
(بشارات الدارین،صفحہ ۶۶۳، مطبوعہ ادارہ مظہر التحقیق، متصل جامع مسجد ختم نبوت کھاڑی ملتان روڈ،لاہور)
(۵)اسی کتاب’’بشارات الدارین‘‘سے سیدی اعلیٰ حضرت کے متعلق کچھ اقتباسات ملاحظہ کیجیے، قاضی صاحب لکھتے ہیں :
’’حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی خدمت میں کسی نے عرض کیا کہ بزرگانِ دین کی تصاویر بطورِ تبرک لینا کیسا ہے؟تو ارشاد فرمایا: ’’کعبہ معظمہ میںحضرت ابراھیم، حضرت اسمٰعیل و حضرت مریم کی تصاویر ہی تھیں کہ یہ متبرک ہیں ناجائز فعل تھا۔ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلّم نے خود دست مبارک سے انھیں دھویا۔ (ملفوظات، حصہ دوم، ص ۸۷) ‘‘
(بشارات الدارین، صفحہ ۲۳۹ ،ناشر ادارہ مظہر التحقیق، متصل جامع مسجد ختم نبوت کھاڑی ملتان روڈ لاہور)
(۶)قاضی صاحب نے اسی کتاب میں ۳؍ جگہ سیدی اعلیٰ حضرت کا اسمِ گرامی یوں لکھا ہے:’’حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی۔‘‘(بشارات الدارین ،صفحہ ۲۷۰)
’’حضرت مولانا احمد رضا خاںصاحب بریلوی۔‘‘ (بشارات الدارین، صفحہ ۵۲۳)
’’مولانا بریلوی مرحوم‘‘ (بشارات الدارین، صفحہ ۵۲۴)
کتاب ’’یاد گارِ حسین ‘‘اور’’ بشارات الدارین‘‘ میں قاضی مظہردیوبندی صاحب نے سیدی اعلیٰ حضرت کی طرف سے شیعہ کا رد کرنا نقل کیا ہے اور آپ کے لیے’’حضرت‘‘ کا تعظیمی لفظ لکھا ہے، اس کے علاوہ قاضی صاحب نے ’’ماہ نامہ حق چار یار،لاہور‘‘ اور ’’بشارات الدارین ‘‘میں اعلیٰ حضرت کو’’مرحوم‘‘ بھی لکھا ہے ۔دوسری طرف دورِ حاضر کے سارق الکتب مشہور دیوبندی عالم الیاس گھمن صاحب نے اپنی کتاب ’’فرقہ سیفیہ کا تحقیقی جائزہ ‘‘ کے صفحہ ۱۷،۱۸ پر کسی شخصیت کے ساتھ لفظ ’’مرحوم ‘‘ لکھنے کوکلمۂ ترحیم ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ کہنے کے مترادف ٹھہرایا ہے۔گویا دیوبندیوںکے ’’مزعومہ اسلام کے متکلم‘‘ الیاس گھمن صاحب کے بیان کیے گئے اصول کے مطابق قاضی مظہر دیوبندی صاحب نے سیدی اعلیٰ حضرت کے لیے ’’مرحوم ‘‘لکھ کرآپ کے لیے رحمت کی دعا کی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قاضی مظہردیوبندی صاحب اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو شیعہ نہیں بلکہ شیعہ کا مخالف سمجھتے تھے۔
بعض حوالوں سے علماے اہلِ سُنّت (بریلی) کے یہاں تکفیرِ شیعہ سے متعلق زیادہ شدت پائی جاتی ہے:(سعید الرحمن علوی دیوبندی کا اعتراف)
(۷)اسی طرح خدام الدین لاہور کے سابق ایڈیٹر مولوی سعید الرحمن علوی دیوبندی صاحب بھی اہلِ سُنّت اور سیدی اعلیٰ حضرت کے حوالہ سے پھیلائی گئی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’پاکستان اور برصغیر کے خصوصی حوالہ سے تحقیق و تجزیہ کرتے ہوئے اس غلط فہمی کا ازالہ بھی ناگزیر ہے کہ سنی، اثناعشری کشمکش صرف اہلِ سُنّت کے حنفی، دیوبندی یا اہل حدیث مسالک تک محدود ہے اور حنفی بریلوی اہلِ سُنّت اس فکری واعتقادی کشمکش سے علیٰحدہ ہیں۔ اس کتاب کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ حنفی بریلوی علماے اہلِ سُنّت بھی شیعہ اور اثنا عشریہ کے گم راہ کن عقائد کے بارے میں اپنے افکار وفتاویٰ میں اتنے ہی حساس اور شدید ہیں جتنا کہ دیگر سنی مکاتب بلکہ بعض حوالوں سے ان کے ہاں تکفیر اثنا عشریہ وروافض کے حوالہ سے شدت نسبتاً زیادہ پائی جاتی ہے جس کا ثبوت زیرِ مطالعہ کتاب میں درج اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی (بحوالہ ’’ردالرفضہ ‘‘وغیرہ) مولانا عبدالباقی فرنگی محلی مہاجر مدنی، خواجہ محمد قمر الدین سیالوی چشتی سجادہ نشین آستانہ عالیہ سیال شریف وبانی صدر جمعیت علماے پاکستان نیز مفتی اعظم پاکستان علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری قادری سابق رکن قومی اسمبلی پاکستان ورئیس دارالعلوم امجدیہ کراچی، مفتی خلیل احمد قادری بدایونی خادم دارالافتا بدایوں وغیرہم کے افکار وفتاویٰ سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔‘‘ (افکارِ شیعہ، صفحہ ۲۰)
قارئین!آپ نے ملاحظہ کیا کہ سعید الرحمن علوی دیوبندی صاحب نے بھی سید ی اعلیٰ حضرت اور دیگر علماے اہلِ سُنّت کے متعلق یہ اقرار کرلیا کہ شیعہ کے متعلق ان کے ہاں دیگر مسالک (دیوبندی وہابی) کی نسبت شدت زیادہ ہے ۔
(۸) علوی دیوبندی صاحب اسی کتاب میں مزید لکھتے ہیں :
’’اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی متوفی ۱۳۴۰ھ/ ۱۹۲۱ء: اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضاخاں بریلوی نے اب سے قریباً نوے سال پہلے ایک سوال کے جواب میں نہایت مفصل ومدلل فتویٰ تحریر فرمایا تھا جو ۱۳۲۰ھ میں ’’رد الرفضہ‘‘ کے تاریخی نام سے شائع ہوا تھا۔ اس میں مستفتی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے شروع میں تحریر فرمایا ہے:’’تحقیق مقام و تفصیل مرام یہ ہے کہ رافضی تبرائی جو حضراتِ شیخین صدیق اکبر، فاروقِ اعظم رضی اللّٰہ عنہماخواہ ان میں سے کسی ایک کی شان میں گستاخی کرے اگرچہ صرف اسی قدر کہ انھیں امام وخلیفہ برحق نہ جانے کتبِ معتمدہ فقہ حنفی کی تصریحات اورعام ائمہ ترجیح وفتویٰ کی تصحیحا ت پر مطلقاً کافر ہے‘‘پھر مولانا مرحوم نے فقہ حنفی کی قریباً چالیس کتب معتمدہ و معتبرہ سے اس کا ثبوت پیش کرنے کے بعد صفحہ ۱۷؍ پر تحریر فرمایا ہے: ’’یہ حکم فقہی تبرائی رافضیوں کاہے اگرچہ تبراوانکارِ خلافتِ شیخین رضی اللّٰہ عنہماکے سوا ضروریاتِ دین کاانکار نہ کرتے ہوں ’’والا حوط فیہ قول المتکلمین انھم ضلال من کلاب النار لاکفار وبہ ناخذ‘‘ (اور اس سلسلے میںماہرینِ علم العقائد کا محتاط تر قول یہ ہے کہ ایسے لوگ گم راہ ، کافر اورجہنم کے کتے ہیں اور ہم اسی راے سے متفق ہیں)اور روافض زمانہ تو ہرگز صرف تبرائی نہیں علی العموم منکرانِ ضروریاتِ دین اور باجماعِ مسلمین یقینا قطعاً کفار مرتدین ہیں یہاں تک کہ علما نے تصریح فرمائی ہے کہ جو انھیں کافر نہ جانے خود کافر ہے۔‘‘ سیدنا معاویہ کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’حضرت امیر معاویہ پر طعن کرنے والا جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے۔‘‘ (احکامِ شریعت، صفحہ۵۵) اعلیٰ حضرت اپنے مشہور تفصیلی فتویٰ ’’ردالرفضہ‘‘ میں یہ بھی فرماتے ہیںکہ:’’بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکمِ قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار و مرتدین ہیںان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے، معاذ اللہ مردرافضی اور عورت مسلمان ہوتو یہ سخت قہرِ الٰہی ہے۔ اگر مرد سنی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی ہرگز نکاح نہ ہوگا، اولاد ولد الزنا ہوگی، باپ کا ترکہ نہ پائے گی، اگرچہ اولاد بھی سنی ہی ہو کہ شرعاً ولدالزنا کا باپ کوئی نہیں۔ عورت نہ ترکے کی مستحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لیے مہر نہیں۔ رافضی اپنے کسی قریب حتیٰ کہ باپ بیٹے، ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پاسکتا، سنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کافر کے بھی یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکے میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں۔ان کے مرد عورت عالم جاہل کسی سے میل جول سلام وکلام سب سخت کبیرہ اشد حرام۔جوان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر پھر بھی انھیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے بہ اجماع تمام ائمہ دین خود کافر بے دین ہے اور اس کے لیے بھی یہی احکام ہیںجو ان کے لیے مذکور ہوئے مسلمانوںپر فرض ہے کہ وہ اس فتویٰ کو بگوشِ ہوش سنیں اور اسی پر عمل کرکے سچے پکے مسلمان سنی بنیں۔‘‘ وباللّٰہ التوفیق واللّٰہ سبحانہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم
کتبہ عبدہ المذنب احمد رضا البریلویمحمدی سنی حنفی قادری ۱۳۰۱ھ عبدالمصطفیٰ احمد رضا خان(ردالرفضہ، تالیف اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی، صفحہ ۲۹،وراجع ایضاً، متفقہ فیصلہ ،مطبوعہ لاہور، حصہ اول، صفحہ۱۷۷)‘‘ (افکارِ شیعہ، صفحہ ۳۱۵و ۳۱۶)
اعلیٰ حضرت کی رد شیعیت میں خدمات کا اعتراف مولوی ضیاء الرحمن فاروقی دیوبندی سابق سربراہ’’ سپاہ صحابہ‘‘ کے قلم سے:
(۹)سیدی اعلیٰ حضرت کو شیعہ قرار دینے والے ’’سپاہ صحابہ‘‘ کے سابق سربراہ مولوی ضیاء الرحمن فاروقی دیوبندی صاحب کوبالآخر اپنے باطل موقف کو چھوڑ کر سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہکی عظمت کو تسلیم کرکے اہلِ سُنّت کے دروازے پر دستک دینی پڑی اور یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑی کہ اعلیٰ حضرت شیعہ کو کافر کہتے تھے۔ فاروقی دیوبندی صاحب نے اپنی کتاب میں’’اہلِ سُنّت والجماعت علماے بریلی کے تاریخ ساز فتاویٰ‘‘کی سرخی قائم کرکے پیر مہر علی شاہ صاحب کے اسمِ گرامی کے بعد سیدی اعلیٰ حضرت کا اسم گرامی یوں لکھا ہے ’’اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضابریلوی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ۔‘‘
(تاریخی دستاویز، صفحہ۱۱۳، شعبۂ نشرواشاعت سپاہ صحابہ، پاکستان)
(۱۰)اس کے اگلے صفحے پر لکھا ہے: ’’اعلیٰ حضرت بریلوی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ کا اہم فتویٰ۔‘‘
(تاریخی دستاویز، صفحہ ۱۱۳،شعبۂ نشر واشاعت سپاہ صحابہ، پاکستان)
کتاب’’ردالرفضہ‘‘ سے سیدی اعلیٰ حضرت کے فتویٰ کا ایک اقتباس نقل کرکے ضیاء الرحمن فاروقی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت کی تصانیف ردِ شیعیت میں‘‘ اعلیٰ حضرت نے رد شیعیت میں ’’ردالرفضہ‘‘ کے علاوہ متعدد رسائل لکھے ہیںجن میں چند ایک یہ ہیں۔ (۱)الادلۃ الطاعنہ (روافض کی اذان میں کلمہ خلیفہ بلافصل کا شدید رد) (۲) اعالی الافادۃ فی تعزیۃ الہند وبیان شہادۃ (۱۳۲۱ھ) تعزیہ داری اور شہادت نامہ کا حکم (۳) جزاء اللّٰہ عدوہ بابائہ ختم النبوۃ (۳۱۷ھ) (مرزائیوں کی طرح روافض کا بھی رد) (۴) لمعۃ الشمعۃ لہدی شیعۃ الشنیعۃ (۱۳۱۲ھ) (تفضیل وتفسیق سے متعلق سات سوالوں کاجواب) (۵) شرح المطالب فی مبحث ابی طالب (۱۳۱۶ھ) (ایک سو کتب تفسیر وعقائد وغیرہا سے ایمان نہ لانا ثابت کیا) ان کے علاوہ رسائل اور قصائد جو سیدنا غوث الاعظم کی شان میں لکھے ہیںوہ شیعہ روافض کی تردید ہیں۔‘‘
(تاریخی دستاویز، صفحہ ۱۱۴،شعبہ نشرواشاعت سپاہ صحابہ، پاکستان)
(۱۱)اسی کتا ب کے صفحہ ۶۵پر ضیاء الرحمن فاروقی دیوبندی صاحب نے سیدی اعلیٰ حضرت کے متعلق ’’فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں صاحب رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ‘‘ جیسے تعظیمی الفاظ لکھنے کے بعد روافض کی تکفیر کے متعلق ’’رد الرفضہ‘‘سے اقتباس بھی نقل کیا ہے۔
(۱۲)مولوی ضیاء الرحمان فاروقی دیوبندی نے بہاولپور میں منعقدہ ایک جلسہ میں تقریرکرتے ہوئے اس حقیقت کو تسلیم کیاکہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضافاضل بریلوی شیعہ کوکافرکہتے تھے ۔مولوی ضیاء الرحمان فاروقی کے اپنے الفاظ ملاحظہ کریں:
’’اگراسلام کی چودہ سوسال کی تاریخ میںہرصدی کاامام،ہرصدی کامجدد،ہرصدی کا پیرمیرے دعویٰ کااقرارنہ کرے،میرے موقِف کی تائیدنہ کرے اورہاں مولانااحمدرضابریلوی کولاؤں گا،مولاناثناء اللہ امرتسری کولاؤں گا،مولانارشیداحمدگنگوہی کولاؤں گا،مفتی کفایت اللہ دہلوی کولاؤں گا،جامع ازہرکے فتوؤں کولاؤں گا،مدینہ یونیورسٹی کے فتوؤں کولاؤں گا،کویت کے مفتیٔ اعظم کے فتوے کولاؤں گا۔توڈی سی صاحب تمہیں مجھ پرپابندیاں لگانے کی ضرورت نہیںرہے گی‘‘
(علامہ ضیاء الرحمان فاروقی شہید ،حیات وخدمات صفحہ۱۱۲مطبوعہ مکتبۃ البخاری،صابری پارک گلستان کالونی،لیاری ٹاؤن،کراچی)
(۱۳)مولوی ضیاء الرحمن فاروقی دیوبندی کی کتاب ’’خلافت و حکومت‘‘ کے بیک ٹائٹل (Back Title) پر لکھا ہے:
’’سپاہ صحابہ کے کارکنوں کے مطالعہ کے لیے لازمی کتابیں‘‘ اور ان کتابوں کی فہرست میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا ذکر یوں کیا گیا ہے ۔:
’ردالرفضہ مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی‘‘
فاروقی صاحب کی یہ کتاب ان کی زندگی میں ان کے اپنے ’’ادارہ المعارف، فیصل آباد‘‘ کی طرف سے شائع ہوئی تھی۔
شیعہ سنی بھائی بھائی کہنے والا مولانا احمد رضا کا پیرو نہیں:(مولوی نافع دیوبندی)
(۱۴)مولوی نافع دیوبندی صاحب نے سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھا:
’’ایک مکتبِ فکر کے مشہور بزرگ علامہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی (المتوفی ۱۳۴۰ھ) کی خدمت میں بعض لوگوں نے حضرت امیر معاویہ کے مقام ومرتبہ سے متعلق چند اشخاص کے درجِ ذیل نظریات پیش کیے۔‘‘
(سیرتِ حضرت امیر معاویہ ، جلداول، صفحہ۶۵۱،۶۵۲،ناشردارالکتاب، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار ،لاہور)
اس کے بعد مولوی نافع دیوبندی صاحب سائل کا سوال اور سیدی اعلیٰ حضرت کا جواب نقل کرکے لکھتے ہیں:
’’اب اگر کوئی شخص حضرت معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو اپنا بھائی کہتاہے اور سنی شیعہ بھائی بھائی کے نعرے لگاتاہے توکیا وہ مولانا احمد رضا خاں کا پیرو کہلانے کے لائق ہے؟ یہ فیصلہ آپ خود کریں۔‘‘
(سیرت حضرت امیر معاویہ ، جلداول ،صفحہ۶۵۴،ناشر دارالکتاب، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار، لاہور)
مولانا احمد رضا نے سیدنا امیر معاویہ کے دفاع کا حق ادا کر دیا: (مولوی نافع دیوبندی کا اقرار)
(۱۵)مولوی نافع دیوبندی صاحب اسی کتاب میں سیدی اعلیٰ حضرت کے ۶ ؍رسائل (جوکہ سیدنا امیرمعاویہ کے متعلق دفاع پر مشتمل ہیں)کا ذکرکرکے لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا رسائل میںعلامہ احمدرضا خاں صاحب بریلوی کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ پر مطاعن اور اعتراضات کا مسکت جواب دیا گیا ہے اور حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی جانب سے عمدہ صفائی پیش کی گئی ہے اور پُر زور طریقہ سے دفاع کا حق ادا کیا ہے نیز ان رسائل کے مندرجات سے حضرت امیر معاویہ کے حق میں جناب علامہ بریلوی کے عمدہ نظریات صاف طور پر سامنے آگئے اوران کی عقیدت مندی واضح ہو گئی۔‘‘
(سیرتِ حضرت امیر معاویہ، جلداول، صفحہ۶۵۵، ناشر دارالکتاب غزنی اسڑیٹ، اردو بازار ،لاہور)
اعلیٰ حضرت کاموقف ہے کہ حضرت امیرمعاویہ کا دشمن جہنمی ہے:قاضی اسرائیل گڑنگی دیوبندی
(۱۶)مولوی قاضی اسرائیل دیوبندی نے اپنی کتاب میںلکھاہے:
’’اعلیٰ حضرت احمدرضا خان کافتویٰ ،حضرت معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا دشمن ہاویہ میں:اعلیٰ حضرت احمدرضاخان بریلوی مسلک اپنی کتاب’’ردالرفض‘‘کے صفحہ نمبر۳۰پرلکھتے ہیں کہ حضرت علامہ خفاجی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ ’’نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض‘‘میں فرماتے ہیں:
وَمَنْ یَکُوْنُ یَطْعَنُ فِیْ مُعَاوِیَۃَ
فَذَالِکَ مِنْ کِلَابِ الْھَاوِیَۃِ
جو شخص حضرت امیرمعاویہ پرطعن کرے وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتاہے‘‘
(مختصرسیرت حضرت امیرمعاویہ صفحہ۲۷مطبوعہالھادی للنشروالتوزیع،۳۸۔غزنی سٹریٹ اردوبازار،لاہور)
قاضی طاہر علی الہاشمی دیوبندی کا امام احمد رضا کو ’’اعلیٰ حضرت‘‘ لکھنا:
(۱۷)ردِ شیعیت میںمتعدد کتب لکھنے والے پروفیسر قاضی طاہر علی الہاشمی دیوبندی، سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اسم گرامی یوں لکھتے ہیں: ’’اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں۔‘‘
(تذکرہ خلیفہ راشد امیر المومنین سیدنا امیر معاویہ، صفحہ ۲۷۹ ، ادارہ مطبوعات سلیمانی، رحمان مارکیٹ غزنی اسٹریٹ، اردو بازار ،لاہور)
اس کے بعد پروفیسر صاحب نے اپنی تائید میں حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہکے متعلق سیدی اعلیٰ حضرت کا عقیدہ بیان کیا ہے۔
سیدی اعلیٰ حضرت کی ردِ شیعیت میں خدمات کا اعتراف: (مولوی منظور نعمانی دیوبندی کے قلم سے)
(۱۸)ماہ نامہ الفرقان لکھنؤ کی خصوصی اشاعت بنام ’’خمینی اور اثنا عشریہ کے بارے میں علماے کرام کا متفقہ فیصلہ‘‘ (جو بعد ازاں ماہ نامہ بینات کراچی کی خصوصی اشاعت میں بھی شائع ہوئی) کے صفحہ ۱۱۷؍ پر سیدی اعلیٰ حضرت کو ’’مولانا مرحوم‘‘ اور ’’فاضل بریلوی جناب مولانا احمد رضا خاں صاحب مرحوم‘‘ لکھ کر ردِ شیعیت میں سیدی اعلیٰ حضرت کا فتویٰ نقل کیا گیا ہے، جو کہ صفحہ ۱۱۸؍ تک درج ہے اس کے مرتب مولوی منظور نعمانی دیوبندی ہیں اور اس پر انھوں نے کسی قسم کا انکار نہیں کیا،گویا سیدی اعلیٰ حضرت کو ’’مرحوم‘‘ کہنا اور ان کی طرف سے شیعہ کا رد کرنا مولوی منظور نعمانی دیوبندی کو بھی تسلیم ہے کیوںکہ مولوی سرفرازخاں صفدر گکھڑوی کڑمنگی لکھتے ہیں :
’’جب کوئی مصنف کسی کا حوالہ اپنی تائید میں نقل کرتاہے اور اس کے حصہ سے اختلاف نہیں کرتا تووہی مصنف کا نظریہ ہوتا ہے۔‘‘
(تفریح الخواطر، صفحہ ۷۹،مطبوعہ مکتبہ صفدریہ، نزدنصرۃ العلوم، گھنٹہ گھر، گوجرانوالہ)
لہٰذا اسی اصول پر یہ بات ثابت ہو گئی۔
سیدی اعلیٰ حضرت کی ردِ شیعیت میں خدمات کا اعتراف:(قاری اظہر دیوبندی کے قلم سے)
(۱۹)اسی طرح قاری اظہر ندیم دیوبندی بھی کتاب’’کیا شیعہ مسلمان ہیں؟‘‘ میں سیدی اعلیٰ حضرت کے متعلق یوں نقل کرتے ہیں :
’’امامِ اہلِ سُنّت اعلیٰ حضرت شاہ احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا فتویٰ۔‘‘
(کیا شیعہ مسلمان ہیں؟صفحہ۲۸۸،تحریک تحفظِ اسلام ،گلگت ،پاکستان، بار اول ستمبر ۱۹۸۷ء)
اس کے بعدانھوں نے سیدی اعلیٰ حضرت کے فتوے کے اقتباسات نقل کیے ہیں، بنظرِ اختصار ان اقتباسات کے عناوین ملاحظہ کریں:
’’صدیق و فاروق کا گستاخ کافر ہے‘‘ ،’’صدیق و فاروق کی خلافت کا منکر کافر ہے‘‘،’’جوغیر نبی کو نبی سے افضل کہے تو کافر ہے ‘‘،’’ حضرت معاویہ پر طعن کرنے والا جہنمی کتاہے‘‘،’’روافض علی العموم کفار اور مرتدین ہیں‘‘، ’’شیعوں کی مجالس اورجلوسوں میں شرکت حرام ہے، وہ حاضری سخت ملعون ہے، اس میں شرکت موجب لعنت ہے۔‘‘
(کیا شیعہ مسلمان ہیں؟صفحہ۲۸۹، ۲۹۰،تحریک تحفظ ِاسلام گلگت،پاکستان باراول ستمبر ۱۹۸۷ء )
ان اقتباسات کے کسی حصہ سے انھوں نے اختلاف نہیںکیا ۔گکھڑوی صاحب کی تصریح کے مطابق قاری صاحب نے سید ی اعلیٰ حضرت کو’’ امام اہلِ سُنّت‘‘ اور’’اعلیٰ حضرت ‘‘تسلیم کرلیا اور یہ بھی ان کا اپنا موقف ثابت ہواکہ سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ نے شیعیت کا رد کیا ہے۔
اعلیٰ حضرت شیعہ نہیں بلکہ شیعہ کو کافر قرار دیتے ہیں: (مولوی حق نواز جھنگوی کا اعتراف)
دیوبندی فرقہ کے مشہور خطیب اور دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ کے سابق امیر مولوی حق نواز جھنگوی کی تقاریر کو دیوبندی مولوی ضیاء القاسمی نے اپنے اہتمام سے اپنے مکتبہ کی طرف سے شائع کیا۔ ان تقاریر میں ۳؍ مقامات پر مولوی حق نواز جھنگوی دیوبندی نے سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلِ سُنّت الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی کی طرف سے شیعہ کا رد کرنا بیان کیا ہے۔ ذیل میں وہ تین اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
(۲۰) جھنگوی صاحب اپنی پہلی تقریر میں کہتے ہیں:
’’علامہ بریلوی بریلویوں کے قائد اور ان کے راہنما بلکہ بقول بریلوی علما کے مجدد، احترام کے ساتھ نام لوں گا، مولانا احمد رضا بریلوی اپنے فتویٰ(فتاویٰ) رضویہ میں اور اپنے مختصر رسالہ ’’ردِ رفضہ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں کہ شیعہ اثنا عشری بد ترین کافر ہیں اور الفاظ یہ ہیں کہ شیعہ بڑا ہو یا چھوٹا مرد ہو یا عورت، شہری ہو یا دیہاتی، کوئی ہو، لاریب، لاشک قطعاً خارج از اسلام ہے اور صرف اتنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے اورلکھتے ہیں من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر جو شخص شیعہ کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے،یہ فتویٰ مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا ہے۔ جو فتویٰ (فتاویٰ) رضویہ میں موجود ہے، بلکہ احمد رضا خاں نے تو یہاں تک شیعہ سے نفرت دلائی ہے کہ ایک شخص پوچھتا ہے کہ اگر شیعہ کنویں میں داخل ہو جائے تو کنویں کا سارا پانی نکالنا ہے یا کچھ ڈول نکالنے کے بعد کنویں کا پانی پاک ہو جائے گا؟‘‘
اس کے کچھ سطر بعد حق نواز جھنگوی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت بریلوی لکھتے ہیں کہ سارا پانی نکال دے تب کنواں پاک ہو گا اور وجہ لکھتے ہیں کہ شیعہ سنی کو ہمیشہ حرام کھلانے کی کوشش کرتے ہیں اگر اس سے اور کچھ بھی نہ ہو سکا تب بھی وہ اہلِ سُنّت کے کنویں میں پیشاب ضرور کر آئے گا اس لیے اس کنویں کا سارا پانی نکال کر باہر کرنا لازمی اور ضروری ہے۔‘‘
(۱۵؍ تاریخ ساز تقریریں ،صفحہ ۱۵، ناشر مکتبۂ قاسمیہ، غلام محمد آباد کالونی اے بلاک، فیصل آباد)
(۲۱)جھنگوی صاحب اپنی دوسری تقریر میں کہتے ہیں:
’’آپ کے پڑوسی محلہ میں مَیں نے مولانا احمد رضا خاں بریلوی کا یہ فتویٰ سنایا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اگر کوئی شیعہ کنویں میں گھس جائے تو مولانا احمد رضا خاں بریلوی کہتے ہیں کہ کنویں کا سارا پانی نکال دو۔ وہ سارا کنواں ناپاک ہو گیا۔ آگے لکھتے ہیں کہ سب کافروں کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ کنویں میں داخل ہوں تو کنویں کا سارا پانی ہی نکالا جاتا ہے یہ کیوں چیزیں سامنے آئیں کس لیے آئیں کہ کفر سے اسلام کا تشخص قائم ہو۔ کفر الگ رہے اور اسلام الگ رہے اور اس مغالطہ میں آ کر کوئی مسلمان اپنی معاشرتی زندگی کو برباد نہ کر بیٹھے۔‘‘
(۱۵؍ تاریخ ساز تقریریں، صفحہ ۲۶۶، مطبوعہ مکتبۂ قاسمیہ، غلام محمد آباد کالونی اے بلاک، فیصل آباد)
حق نواز جھنگوی دیوبندی کی تقریر کے اس اقتباس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت شیعہ کو کافر اور جس کنویں میں شیعہ جائے اسے پاک کرنے کا اس لیے کہتے تھے تاکہ کفر اور اسلام الگ الگ رہیں اورمسلمان اپنی معاشرتی زندگی تباہ نہ کر بیٹھیں۔
(۲۲)جھنگوی صاحب اپنی تیسری تقریر میں کہتے ہیں:’’احمد رضا خاں بریلوی شیعوں کو کافر کہتے ہیں۔‘‘
(۱۵؍ تاریخ ساز تقریریں، صفحہ ۱۶۶، مطبوعہ مکتبۂ قاسمیہ ،غلام محمد آباد کالونی اے بلاک ،فیصل آباد)
مولوی حق نواز جھنگوی دیوبندی کی تقاریر سے پیش کیے گئے ان تین اقتباسات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت شیعہ نہیں بلکہ شیعہ کے سخت مخالف ہیں، انھیں کافر قرار دیتے ہیںاور اُن کے کفر میں شک کرنے والے کو بھی کافر کہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت شیعہ کو کافر قرار دیتے ہیں: (دیوبندی سالنامہ سرخرو،لاہورکاا اعتراف)
(۲۴)دیوبندی سالنامہ سرخرو،لاہورکے مولوی حق نوازجھنگوی دیوبندی کے متعلق شائع کیے گئے ’’حق نوازجھنگوی نمبر ‘‘سے تین اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں،جن میں( دیوبندیوں کی طرف سے) یہ اقرارکیاگیاہے کہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت نے شیعہ کا ردکیاہے ،ملاحظہ کیجیے:
’’بعض حضرات مولاناکے بارے میں یہ تاثررکھتے ہیں کہ انہوں نے اکابر سے انحراف کیاہے حالانکہ مولانانے کوئی نئی بات پیش نہیں کی بلکہ اہلِ تشیع کے کفرپرہردورکے تقیہ شناس علماء حق مثلا جلیل القدرتابعی امام شعبی،تبع تابعین کے دور میں مدینہ منورہ کے محدث وفقیہ اما م مالک ؒ،پانچویں صدی ہجری کے ابن حزم اندلسیؒ،چھٹی صدی ہجری کے قاضی عیاض مالکی ؒ،شیخ عبدالقادرجیلانیؒ،امام رازیؒ،ساتویں صدی ہجری کے علامہ ابن ہمام حنفیؒ،آٹھویں صدی ہجری کے ابن تیمیہ،نویں صدی ہجری کے صاحبِ فتاویٰ بزازیہ،دسویں صدی ہجری کے علامہ ملا علی قاری حنفیؒ،مجددالف ثانی ؒ،بارہویں صدی ہجری کے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ،تیرھویںصدی ہجری کے شاہ عبدالعزیزمحدث دہلویؒ،قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ،علامہ ابن عابدین شامیؒ،مولاناعبدالباری فرنگی محلیؒ،مولانامحمدقاسم نانوتوی،مولانارشیداحمد گنگوہی، چودھویں صدی ہجری کے مولاناخلیل احمدسہارنپوریؒ،مولانااحمدرضاخان بریلویؒ سمیت ہرمکتبِ فکر کے علماء نے اہلِ تشیع کے کفرکاجوفتویٰ دیاہے،مولاناحق نوازجھنگوی نے اسی کواپنے خونِ جگر سے زبانِ زدِ عام کردیاہے‘‘
(سالنامہ سرخرو،لاہور۔خصوصی اشاعت حق نواز جھنگوی شہید ۔ صفحہ۴۳۹)
(۲۵)’’بریلوی مکتبِ فکرکے امام اورپیشوانے تویہاں تک کہاکہ جوشخص شیعہ کے کفرمیں شک کرے وہ بھی کافرہے‘‘
(سالنامہ سرخرو،لاہور۔خصوصی اشاعت حق نواز جھنگوی شہید ۔ صفحہ۷۱۲)
(۲۶)’’بریلوی مکتبہ فکرسے مولانااحمدرضاخان بریلوی کانامِ نامی بھی مدحِ صحابہ رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کی تحریک میں تحریری شکل میں سامنے آیا‘‘
(سالنامہ سرخرو،لاہور۔خصوصی اشاعت حق نواز جھنگوی شہید ۔ صفحہ۷۴۳)
دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ کی طرف سے اعلیٰ حضرت کو’’امام ‘‘ تسلیم کرناـ:
(۲۷)دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کی طرف سے ایک ۱۲؍ ورقی کتابچہ ’’کیا شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں؟‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس دیوبندی کتابچہ میں سیدی امام اہلِ سُنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کی طرف سے ردِشیعیت میں دیے گئے فتوے کا خلاصہ نقل کیا گیا ہے، فتویٰ سے پہلے اعلیٰ حضرت کا اسمِ گرامی یوںلکھا ہے:
’’اہم نکات تاریخی فتویٰ مولانا امام احمد رضاخاں‘‘
(کیا شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں؟ صفحہ ۱۱، ناشر مرکزی شعبۂ نشرو اشاعت سپاہ صحابہ، جھنگ، پاکستان)
اس اقتباس میں دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ نے اعلیٰ حضرت کو ’’امام‘‘ تسلیم کرتے ہوئے آپ کے لیے کلمۂ ترحیم( رحمۃاللّٰہ علیہ )کی علامت ’’ ؒ‘‘ بھی لکھی ہے ۔اوراس کے بعدسیدی اعلیٰ حضرت کے فتوے کا خلاصہ یوں نقل کیا گیا ہے:
’’۱۔شیعہ مرد یا شیعہ عورت سے نکاح حرام اور اولاد ولدالزنا، ۲۔شیعہ کا ذبیحہ حرام، ۳۔شیعہ سے میل جول ،سلام ،کلام اشد حرام، ۴۔جو شخص شیعہ کے ملعون عقائد سے آگاہ ہو کر پھر بھی انھیں مسلمان جانے بالاجماع تمام ائمہ دین خود کافر ہے۔‘‘
(کیا شیعہ سنی بھائی بھائی ہیں؟ صفحہ ۱۱، ناشر مرکزی شعبۂ نشرو اشاعت سپاہ صحابہ، جھنگ، پاکستان) دیوبندی تنظیم سپاہ صحابہ کے شائع کردہ کتابچہ سے پیش کیے گئے اس حوالہ سے بھی یہ بات بخوبی ثابت ہوئی کہ امام احمد رضا فاضلِ بریلوی شیعہ نہیں بلکہ شیعہ کارد کرنے والے تھے۔
اعلیٰ حضرت شیعہ کو کافر قرار دیتے ہیں: (مولوی مہرمحمددیوبندی(میانوالی) کا اعتراف)
مولوی مہرمحمددیوبندی کی کتاب’’شیعہ اورعقیدہ ختم نبوت‘‘،’’مولوی ابوعثمان‘‘کے نام سے کراچی سے شائع ہوئی۔مؤلف کے نام کی تصدیق ہمیں یوں ہوئی کہ اسی کتاب کے صفحہ ۴۱پرمؤلف نے لکھاہے:
’’راقم کی کتاب’’عدالت حضرات صحابہ کرامؓ ‘‘(شیعہ اورختمِ نبوت صفحہ۱۲۰،۱۲۱مطبوعہ مرحبااکیڈمی،کراچی،طبع دوم۲۰۱۲ء)اس اقتباس میں مذکور کتاب مولوی مہرمحمددیوبندی کی تالیف ہے۔
اسی کے صفحہ۵۱پرمؤلف نے پھرلکھاہے:
’’ہم نے ۱۹۷۶ء میں ایک بڑاشیعہ کا چارٹ’’میں کیوںشیعہ ہوا‘‘کاعلمی جواب’’تحفۃ الاخیار‘‘کے نام سے لکھاتھا،پھر اسے ہی مفصل۵۰۰صفحات میں ’’تحفہ امامیہ ‘‘کے نام سے لاجواب تحقیقی کتاب میں شائع کیا‘‘
(شیعہ اورختمِ نبوت صفحہ۱۲۰،۱۲۱مطبوعہ مرحبااکیڈمی،کراچی)
اس اقتباس میں مذکوردونوں کتب بھی مولوی مہرمحمددیوبندی کی تالیف کردہ ہیں۔ لہٰذاان دونوں اقتباسات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کتاب’’شیعہ اورختم نبوت‘‘کے مؤلف مولوی مہرمحمددیوبندی ہیں۔
(۲۸)مولوی مہرمحمددیوبندی نے اعلیٰ حضرت کی ردِ شیعیت میں خدمات کا اقرارکرتے ہوئے لکھاہے:
’’حضرت مولانااحمدرضاخان صاحب بریلوی ؒ:مولانااحمدرضاخان صاحب بریلوی ؒنے آج سے تقریباً ایک صدی قبل ۱۳۲۰ھ میں ایک سوال کے جواب میں نہایت مفصل ومدلل فتویٰ تحریرفرمایاجوکہ ’’ردالرفضہ‘‘کے تاریخی نام سے شائع ہوا۔اس کے صفحہ۱۲پرتحریرفرماتے ہیں کہ شیعوں کے بہت سے عقائد کفریہ کے علاوہدوکفرصریح ہیں ان کے عالم جاہل مردوعورت چھوٹے بڑے سب باتفاق گرفتار ہیں۔کفرِ اوّل:قرآنِ عظیم کوناقص بتاتے ہیں۔کفرِ دوم:ان کا ہر متنفس سیّدناامیرالمؤمنین علی ودیگرائمہ طاہرین رضوان اللّٰہ تعالٰی علیہم اجمعین کو حضرات عالیات انبیاء سابقین علیہم الصلٰوۃ والتحیات سے افضل بتاتاہے۔اورجوکسی غیرنبی کونبی سے افضل کہے یہ اجماعِ مسلمین ہے کہ وہ کافراوربے دین ہے اور یہ بات ظاہرہے کہ جوغیرنبی کو نبی سے بلنددرجہ دے وہ درحقیقت مرتبہ نبوت کی توہین کررہاہے اورائمہ اہلِ بیت کی آڑ میں ختمِ نبوت کاانکارکررہاہے‘‘
(شیعہ اورختمِ نبوت صفحہ۱۲۰،۱۲۱مطبوعہ مرحبااکیڈمی،کراچی۔طبع دوم۲۰۱۲ء)
(۲۹)اسی کتاب میں ایک اورمقام پرمولوی مہرمحمددیوبندی نے لکھاہے:
’’شیعہ اثناعشریوں کی تکفیران کے عقیدے امامت کی بناء پرتینوں مکاتبِ فکر اہلسنت والجماعت دیوبندی،بریلوی،اہلحدیث کے جید علمائے کرام نے وضاحت کے ساتھ کی ہے‘‘۔(شیعہ اورختمِ نبوت صفحہ۹۱مطبوعہ مرحبااکیڈمی،کراچی۔طبع دوم۲۰۱۲ء)
ان اقتباسات میں مولوی مہرمحمددیوبندی نے تسلیم کیاکہ اہل سنت وجماعت بریلوی کے جیدعلمائے کرام بالخصوص سیدی اعلیٰ حضرت شیعہ کو کافرکہتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت کاشیعہ کوکافرکہنا قرآن وسنت کے مطابق درست ہے: (دیوبندی ماہنامہ الاحرار، ملتان کا اعتراف)
(۳۰) مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری دیوبندی کے پوتے معاویہ بخاری دیوبندی کی ادارت میں شائع ہونے والے ’’ماہنامہ الاحرار،ملتان‘‘ میں سیدی اعلی حضرت کے ردِ شیعہ میں جاری ہونے والے فتاویٰ کو نقل کیاگیاہے:
’’شیعوں کی مجالس میں شرکت حرام وموجبِ لعنت ہے:شیعوں کی مجالس میں جانا اور مرثیہ سننا حرام ہے ان کی نیاز نیاز نہیں ہے اور غالباًنجاست سے خالی نہیں ہوتی۔ کم ازکم قلتبین کا پانی ضرورہوتاہے اور(ان کی مجالس میں)وہ حاضر سخت ملعون ہے اور اس میں شرکت موجبِ لعنت ہے،محرم میں سیاہ اورسبزکپڑے سوگ کی علامت ہیںاور سوگ حرام ہے۔ ذکرِشہادت ومصائب شہدائے کربلاوسوزخوانی مرثیہ پڑھناحرام ہے ۔حدیث میں ارشادہے کہ’’ ان کے پاس نہ بیٹھو ‘‘دوسری حدیث میں ہے کہ جو کسی قوم کامجمع بڑھائے وہ انہی میں سے ہے‘‘(احکام شریعت)مسئلہ:کیافرماتے ہیں مسائلِ ذیل میں۔۱۔بعض اہلِ سنت جماعت عشرۂ محرم میں نہ توروٹی پکاتے ہیں، نہ جھاڑودیتے ہیں کہتے ہیں بعددفن روٹی پکائی جائے گی۔۲۔اس دن کپڑے نہیں اتارتے۔۳۔ماہِ محرم کو شادی بیاہ نہیں کرتے۔الجواب: یہ تینوں باتیں سوگ ہیں اورسوگ حرام ہے‘‘رسالہ تعزیہ داری تصنیف مولانااحمدرضاخان صاحب بریلوی میں ہے:’’عشرۂ محرم کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعتِ پاک تک نہایت بابرکت محلِ عبادت ٹھہرا ہواتھا۔ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اورفاسقانہ میلوں کازمانہ کردیا۔’’یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ‘‘کہ گویاخودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رِضْوَانُ اللّٰہ عَلَیْہِمْ کے جنازے ہیں،کچھ اُتارا،باقی توڑااوردفن کردیے۔ یہ ہرسال اضاعتِ مال کے جرم میں دووبال جداگانہ ہے ،اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کانام ہے، قطعاًبدعت وناجائزہے،حرام ہے‘‘۔سوال:تعزیہ بنانااور اس پرنذرونیازکرناعرائض بایدحاجت برآری لٹکانااور بہ نیت بدعتِ حسنہ اس کو داخلِ حسنات جانناکیساگناہ ہے؟الجواب:افعالِ مذکورہ جس طرح عوام ِ زمانہ میںرائج ہیں بدعتِ شنیعہ وممنوع وناجائزہیں‘‘۔’’تعزیہ پرچڑھایاہواکھانانہ کھاناچاہیے اگرنیازدے کر چڑھائیں یاچڑھاکرنیازدیں توبھی اس کے کھانے سے احترازکریں‘‘۔
’’مرثیہ خوانی کی محفل میںاہلِ سنت وجماعت کی شرکت حرام:سوال مجلسِ مرثیہ خوانی اہلِ شیعہ میں اہلِ سنت وجماعت کو شریک ہوناجائزہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب :حرام ہے۔حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کاارشادفرماتے ہیں:مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ وہ بدزبان ناپاک لوگ اکثرتبرّابَک جاتے ہیں۔اس طرح کہ جاہل سننے والوں کوبھی خبرنہیں ہوتی اور متواترسناگیاہے کہ سُنّیوں کو شربت دیتے ہیں اس میں نجاست مِلاتے ہیں اور کچھ نہ ہوتواپنے یہاں قلتبین کاپانی ملاتے ہیں اور کچھ نہ ہوتووہ روایاتِ موضوعہ وکلِماتِ شنیعہ ماتم حرام سے خالی نہیں ہوتی اور یہ دیکھیں سنیں گے اور منع نہ کرسکیں گے ایسی جگہ جاناحرام ہے۔فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْم الظّٰلِمِیْن ’’تویادآنے پرظالموں کے پاس نہ بیٹھو‘‘(ترجمہ احمدرضا۔بینواتوجروا)
’’روافض میں شادی کرناکیسا ہے؟:آج کل عجیب قصہ ہے کوئی رافضی کسی کاماموں ہے اور کسی کا سالا،کوئی کچھ،کوئی کچھ۔۔۔ارشاد:ناجائزہے ،ایمان دلوں سے ہٹ گیاہے اللہ اوررسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی محبت جاتی رہتی ہے۔ رب العزت ارشادفرماتاہے:تجھے اگرشیطان بھُلادے تویادآنے پرظالموں کے ساتھ نہ بیٹھ‘‘حضورصلی اللّٰہ علیہ وسلمفرماتے ہیں:اَیَااَلْحِدُوااِیَّاھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَایُفْتِنُوْنَکُمْ ان سے دوربھاگو،اورانہیں اپنے سے دورکرو کہیںوہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں تمہیں فتنے میں نہ ڈالیں‘‘خاص رافضیوں کے بارے میںایک حدیث ہے۔ترجمہ:ایک قوم آنے والی ہے ان کا ایک بدلقب ہوگا،انہیں رافضی کہاجائے گا،نہ جمعہ میں آئیں گے اور نی جماعت میں ۔اورسلف کوبُراکہیں گے تم ان کے پاس نہ بیٹھنانہ ان کے ساتھ کھاناپینا،نہ شادی بیاہ کرنابیمارپڑیں توپوچھنے نہ جانامرجائیں توجنازے پرنہ جانا۔آج کل کے روافض توعموماً ضروریاتِ دین کے منکراورقطعاًمرتدہیں ان کے مردیاعورت کاکسی(سنی مردیاعورت)سے نکاح ہو سکتاہی نہیں۔’’کملے سنیوں!اللہ تعالیٰ،نبی کریمصلی اللّٰہ علیہ وسلماور اعلیٰ حضرت ایک ہی بات ارشاد فرمارہے ہیں‘‘۔’’مولانااحمدرضاخان صاحب کے مسلسل شیعہ فرقہ کے خلاف اہلِ سنت کا قرآن وسنت کی روشنی میں درست مؤقف لکھنے سے ان میں سے بہت سی رسوم کاخاتمہ ہوگیا‘‘۔
الحمدلِلّٰہقارئینِ کرام!اس مضمون میں دیوبندی علما ء کے پیش کیے گئے حوالہ جات سے ’’مطالعۂ بریلویت‘‘ نامی مجموعہ دجل وفریب میں اعلیٰ حضرت کو شیعہ کہنے والے ڈاکٹر خالد محمود دیوبندی کے جھوٹ کی خوب تردید ہو گئی ہے۔ اِن حوالہ جات کے بعد بھی اگر کوئی دیوبندی اعلیٰ حضرت کو شیعہ یا شیعہ نواز کہے گا تو وہ مذکورہ بالادیوبندی علماء کی تردیدبھی کرے گا۔ اسے کہتے ہیں: الفضل ما شَھِدت بہ الاعداء۔