اسلام اور ہندو دھرم میں محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری: ایک تقابلی مطالعہ
ڈاکٹر محمد احمد نعیمیؔ
اسسٹنٹ پروفیسر ڈپارٹمنٹ آف اسلامک اسٹڈیز
جامعہ ہمدرد (ہمدرد یونیورسٹی ) نئ دہلی
ِاسلام میںمحبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری
قرآن و حدیث کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے انسانی اقدار یا اخلاقی تعلیمات کا جو دستور پیش کیا ہے اس میں محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کو امتیازی مقام حاصل ہے ۔ محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کا باہمی تعامل و ارتباط اور تعلقات سے گہرا تعلق ہے اور بنیادی طور پر انسانی سماج میں چار قسم کے تعلقات پائے جاتے ہیں ۔(۱)سماجی تعلقات (۲) مذہبی تعلقات (۳) سیاسی تعلقات اور (۴) معاشی تعلقات۔ان چاروں اقسام کے تعلقات کے متعلق اسلام نے جو تعلیمات و ہدایات پیش کی ہیں ان میں مذکورہ اخلاقی اقدار کی مستحکم و مضبوط بنیادیں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں ۔
ایک انسان کا دوسرے انسان کے لئے رحم دل ہونا، محبت و پیار کا جذبہ رکھنا اور مشکل و پریشانی کے اوقات میں حتی الامکان مدد کرنا و ہمدردی سے پیش آنابھی انسانی اقدار واخلاقی تعلیمات کا ایک نمایاں پہلو ہے، جس کے تعلق سے اسلام نے ایسے مثالی و روشن احکامات و قوانین مرتب کئے ہیں کہ جن کی پیروی میں پوری انسانی دنیا کی راحت و خوش حالی مضمر ہے۔اسلامی نقطۂ نظر سے ہر انسان پر ضروری ہے اور اس کا انسانی فریضہ ہے کہ وہ تمام نوع انسانی سے نرمی و رحم دلی سے پیش آئے اور اس سے محبت و پیار کا مظاہرہ کرے اور مصیبت و تکلیف کی صورت میں ہمدردی و معاونت کرے۔ اللہ رب العزت اپنے مقدس کلام میں ارشاد فرماتا ہے :
ــ’’اور نیکی و پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو‘‘۔۱
’’اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس میں میل رکھو‘‘۔ ۲
’’بے شک اللہ حکم دیتا ہے انصاف اور بھلائی کا اور رشتے داروں کے دینے کا‘‘۔۳
اور نبیٔ اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
’’رحم کرنے والوں پر رحمن (اللہ تعالیٰ) رحم فرماتا ہے تم لوگ زمین والوں پر رحم کرو تو آسمان والا تم لوگوں پر رحم فرمائے گا‘۔۴
’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے‘‘۔۵
’’ اللہ اس شخص پر رحم نہیں فرماتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔۶
’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور تمام مخلوق میں اللہ کا سب سے زیادہ پیارا وہ ہے جو اس کے کنبے کو زیادہ نفع پہنچائے‘‘۔۷
اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہےاس لئےمحبت و ہمدردی کے علاوہ وہ اس بات کی بھی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ ایک انسان دوسرے انسان پر ظلم و زیادتی کرے یا اس کے رنج و خوف کا باعث بنے اور اس کو تکلیف و نقصان پہنچائے۔ کیونکہ ظلم و زیادتی کی وجہ سے انسان اور حیوان ہی نہیں بلکہ جمادات و نباتات وغیرہ بھی خائف رہتے ہیں۔ پورا نظامِ امن درہم برہم ہو جاتا ہے اور انسانی معاشرہ و ماحول نت نئی آفات میں گرفتار ہو کر قلبی و ذہنی بیمار ہو جاتا ہے۔ اس لئے اسلام نے اس کے سد باب و روک تھام کے لئے بڑے سخت و روشن قدم اٹھائے ہیں اور کہیں کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کیا ہے جس سے انسان فریب کھا کر ظلم و ستم کے بھیانک و تاریک گڑھے میں اوندھے منہ گر سکے۔ چنانچہ ظلم و ظالم کی مذمت کرتے ہوئے اللہ رب العالمین ارشاد فرماتا ہے :
’’اور ظلم کرنے والوں کا کوئی حمایتی و مددگار نہیں‘‘۔۸
’’نہ تم کسی کو نقصان پہنچائو اور نہ تمہیں نقصان ہو‘‘۔۹
’’بے شک ظالموں کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔۱۰
قرآن کریم کی روشنی میں ظلم کتنا شدید گناہ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی بخوبی لگا سکتے ہیں کہ اس نے ایک انسان کی زندگی کو اتنی عظیم قدر و قیمت بخشی ہے کہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر جرم عظیم قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
’’جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جلایا اس نے گویا سب لوگوں کو جلا لیا‘‘۔۱۱
اس طرح قرآن نے ظلم کو بہت ہی عظیم گناہ قرار دیا ہے اور اس سے باز رہنے کی بڑی سخت ہدایت و نصیحت فرمائی ہے۔ اور صرف ظلم سے اجتناب و احتراز کی تاکید نہیں فرمائی ہے بلکہ اگر کسی نے آپ پر ظلم کیا ہے تو اس کے جواب میں ظالم و مجرم کے ساتھ انتقامی طور پر بھی انصاف سے تجاوز کرنے کو ناپسند کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ ایسی صورت میں بھی اسی حد تک انتقام ضروری ہے کہ جتنا ظلم آپ کے ساتھ کیا گیا ہےچنانچہ ارشادِ خدا وندی ہے:
’’جو تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر اسی کے برابر زیادتی کرو جو اس نے تم پر کی ہے‘‘۔۱۲
قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ رب العٰلمین کسی حال و کسی صورت میں ظلم کو پسند نہیں فرماتا۔ مقام غور ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خالق و مالک اور حاکم ہونے کے باوجود کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا تو پھر انسان اور اس کی مخلوق و محکوم کے لئے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ اسی کے عطا کردہ اختیارات اور طاقتوں کو دوسروں پر ظلم ڈھانے کے لئے استعمال کرے۔
آیات قرآنی کے علاوہ احادیث رسولﷺمیں بھی ظلم و ستم کے تعلق سے بڑی نصیحت آمیز اور بصیرت افروز تعلیمات و ہدایات ارشاد فرمائی گئی ہیں جن میں بڑی شدت و تاکید کے ساتھ ظلم و زیادتی سے لوگوں کو منع فرمایا گیا ہے :
’’حضرت ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اس کو حرام ٹھہرایا ہے لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو‘‘۔
’’ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جو شخص ظالم کو طاقت پہونچانے کے لئے اس کے ساتھ چلتا ہے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے ، ایسا شخص اسلام سے خارج ہو جاتا ہے‘‘ ۔۱۳
’’اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ اگر وہ مظلوم ہو تب میں اس کی مدد کروں صحیح ہے لیکن مجھے یہ بتائیے کہ جب وہ ظالم ہو تو میں اس کی کیسے مدد کروں؟ فرمایا اس کو ظلم سے باز رکھو یا فرمایا اس کو روکو کیونکہ یہ بھی اس کی مدد ہے‘‘۔۱۴
اس طرح اسلام نے ظلم کا سدباب کرنے کے لئے بڑی سخت ہدایت و نصیحت فرمائی ہے اس لئے کہ اگر ظالم کو ظلم سے نہ روکا جائے تو معاشرہ میں ظلم و زیادتی عام ہو جاتی ہے غلط عناصر کے حوصلے بلند ہونے لگتے ہیں اور جرائم میں بھی اضافہ ہونے لگتا ہے اور پورے انسانی سماج کا امن و امان اور محبت وہمد ردی کا ماحول تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔
کفر و شرک اسلامی شریعت اور اس کے دستور میں سب سے بڑا گناہ و جرم ہے۔ لیکن اس گناہ و جرم کے مرتکبین کو بھی اسلام نے انسانی حقوق سے محروم نہیں کیا ہے۔ ان کے لئے بھی بنا کسی فرق و امتیاز کے حقوق کی خاص رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ یہاں تک کہ غریبوں، مسکینوں اور مفلسوں کی مالی اعانت، پریشاں حالوں و مجبوروں کی مدد کے سلسلے میں مسلم و غیر مسلم کی کوئی قید نہیں رکھی ہے بلکہ سب کے ساتھ یکساں حسن سلوک سے پیش آنے کی نصیحت کی گئی ہے اور انسانیت کے ناطے تمام ضرورت مندوں کی حاجت روائی کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہرسول اللہﷺ ارشاد فرماتے ہیں :
’’جس نے کسی ایسے غیر مسلم کو قتل کیا جس سے معاہدہ ہو چکا ہو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی دوری سے محسوس ہوگی‘‘۔۱۵
’’خبردار! جس شخص نے کسی غیر مسلم معاہد پر ظلم کیا یا اس کی عیب جوئی کی یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اس سے کام لیا اور اس کی کوئی چیز اس کی مرضی کے بغیر لے لی تو قیامت کے دن میں اس کے خلاف رہوں گا‘‘۔۱۶
’’ان کے مال ہمارے مالوں کی طرح ہیں اور ان کے خون ہمارے خونوں کی طرح ہیں اور ان کی عزت ہماری عزتوں کی طرح ہے‘‘۔۱۷
مختصر یہ کہ اسلام نے غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے انسانی حقوق متعین کرنے میں کوئی جانب داری یا حق تلفی سے ہرگز کام نہیں لیا ہے بلکہ ان کے مال، خون اور عزت کومسلمانوں ہی کی طرح محترم قرار دیا ہے۔ اور مسلمانوں کی طرح ان کو بھی مذہبی، سماجی و معاشی اور نجی معاملات میں مساوات کا حق دیا ہے۔
انسانی معاشرہ میں ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ کس طرح کا برتائو کرنا چاہئے، ملنے جلنے اور اٹھنے بیٹھنے کا کیا انداز ہونا چاہئے اور کس طرح بات چیت کرنی چاہئے، اس تعلق سے جب ہم اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ان تمام صورتوں میں اخوت و بھائی چارہ اور دوستانہ و ہمدردانہ تعلقات استوار کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اسی جذبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے باہمی ملاقات، اٹھنے بیٹھنے اور بات چیت کا انداز اپنانے کا سبق دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
’’مسلمان مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں‘‘۔ ۱۸
’’اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘۔ ۱۹
کلامِ الٰہی کی ان آیات سے بخوبی ظاہر ہے کہ ایک مسلمان خواہ وہ کسی رنگ و نسل کا ہو اور کسی بھی ملک کا باشندہ ہو، دوسرے مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ اپنے بھائی اور دوست جیسے حسن سلوک سے پیش آئے کیونکہ وہ جملہ مسلمانوں کا دینی و ایمانی بھائی اور دوست ہے۔
قرآن مقدس کے علاوہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہی سبق ملتا ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں اخوت و ہمدردی سے مل جل کر رہنا چاہئے۔ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے رنج و تکلیف کا احساس ہونا چاہئے اور مشکل وقت میں اس کی مدد کرنی چاہئے۔ نبیٔ اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’مسلمان مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کے لئے سہارا بنتا ہے۔ پھر آپ نے مثال دیتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں۔ یعنی مسلمانوں کو اس طرح مل جل کر رہنا چاہئے کہ وہ مصیبت و پریشانی کے حالات میں ایک دوسرے کے معاون بن سکیں‘‘۔۲۰
’’تمام مسلمان ایک آدمی کی طرح ہیں، اگر آنکھ دکھتی ہے تو سارا جسم بے چین ہو جاتا ہے، اگر سر میں درد ہوتا ہے تو سارا جسم بے چینی اور پریشانی کا احساس کرتاہے۔ ۲۱
اسلامی نقطۂ نظر سے انسانی معاشرہ میں اخوت و ہمدردی کا ماحول قائم کرنا کتنا اہم و ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس کو ایمان کی تکمیل اور مسلمان کی بھلائی کا سبب قرار دیا ہے۔نبیٔ اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک ایمان نہ لائو اور تم مومن نہیں ہو سکتے جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو‘‘۔۲۲
’’تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے‘‘۔۲۳
غالباً یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ایک انسان کے دوسرے انسان پر جو سماجی حقوق اور اخلاقی احکام و آداب متعین کئے ہیں، مثلاً ملاقات، سلام، مصافحہ، معانقہ، مزاج پرسی، قبولِ دعوت اور جنازے میں شرکت وغیرہ، ان میں بھی اس کو پیش پیش رکھا ہے اور ان کا یہی مقصد بیان کیا ہے کہ ان سےباہمی محبت وہمدردی، بھائی چارگی، انسان دوستی اوررواداری کو فروغ ملتا ہے۔ اسی طرح اسلام دنیا کے غیر مسلموں کے ساتھ بھی محبت اور انسان دوستی کی تعلیم دیتا ہے۔چنانچہ قرآن و حدیث میں ہے:
’’ان کا کھانا جن کو کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہے اور تمہارا کھانا ان کیلئے حلال ہے‘‘۔ ۲۴
معاشرتی زندگی میں ایک دوسرے کے لئے محبت و اخوت کے فروغ کا بہترین ذریعہ دعوت دینا اور دعوت قبول کرنا بھی ہے۔خود رسول اللہ ?ﷺنےنہ صرف یہ کہ غیر مسلم یہودی کی دعوت قبول فرمائی ہے بلکہ غیر مسلموں کو دعوت دیا کرتے تھےاور ان کی مہمان نوازی کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے جب اظہارِنبوت یا اعلانِ رسالت فرمایا تو بنی ہاشم کو طعام کے لئے مدعو کیااور تقریباً تیس لوگوں کو جمع فرمایا ۔اور کھانا کھلانے کے بعد ان کے سامنے اسلام کا تعارف پیش فرمایا۔
اسی طرح آپ ﷺ نے مہمان نوازی کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ مہمانوں کا اعزازواکرام کرنے کی بہت فضیلت بیان کی ہے۔اور اس میں مسلم اور غیر مسلم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے۔آپ ﷺ کے پاس مختلف علاقوں اور قبیلوںکے سردار اور وفد آیا کرتے تھے اور آپ ان کی مہمان نوازی فرمایاکرتے تھے۔جنگ بدر میں جو لوگ قیدی بنائے گئے ،ان کے بارے میں آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کو ہدایت و نصیحت فرمائی کہ ان کے کھانے پینے کا بہتر انتظام کریں۔اسی لئے بہت سے صحابۂ کرام خود معمولی کھانا کھاکر ان کو بہتر کھانا کھلایا کرتے تھے۔حالانکہ وہ حملہ آور جانی و مالی اور ایمانی دشمن تھے۔ ۲۵
ابتدائے اسلام میں بعض مومنوں کو شبہ ہوتا تھا کہ کافر و مشرک اعزا و اقرباکے ساتھ کیسے محبت و ہمدردی اور صلہ رحمی کا برتائو کیا جائے۔ چنانچہ قرآنِ پاک اور حدیث پاک نے اسی دور میں اس مسئلہ کو بالکل واضح فرمادیا اور ارشاد فرمایا کہ :
’’اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل و انصاف سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو۔ بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ اللہ تمہیں ان لوگوں کو دوستی سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ مین جنگ کی ہو اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی ، جوان سے دوستی کرے وہی ظالم ہیں‘‘۔۲۶
اورحدیث شریف میں ہے :
’’حضرت اسماء بنت ابو بکر فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺکے زمانے میں میری والدہ (جو مشرکہ تھیں) عمدہ سلوک کی طلب میں میں میرے پاس (مدینہ) تشریف لائیں۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، کیامیں اپنی ماں کے ساتھ حسن سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایاہاں ان کیساتھ نیک سلوک کرو‘‘۔ ۲۷
قرآن و حدیث کی عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ جو قوم مسلمانوں سے جنگ و جدال نہ کرے اور ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالے تو ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کو اسلام منع نہیں کرتا۔ بعض لوگ لاعلمی یا تعصب کی بنا پر کہتے ہیں کہ اسلام میں اقلیتوں یعنی غیر مسلموں کے حقوق محفوظ نہیں ہیں ، ان کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے مظلوم و مجبور ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ انصاف کا برتائو نہیں کیا جاتا ہے، یہ سراسر بہتان و الزام ہے کیونکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے کہ جس میں غیر مسلموں کے حقوق مالی و جانی اعتبار سے مسلمانوں کے حقوق کے مساوی ہیں۔ اسلامی حکومت میں غیر مسلم اسلامی دستور کے مطابق اپنے جملہ تمدنی حقوق سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ، اپنے پرسنل لا پر عمل کر سکتے ہیں اپنے معاملات کے فیصلے خود حل کرسکتے ہیں ، اپنی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں، ان کے مال و جائیداد پر کوئی جبراًقبضہ نہیں کرسکتا۔ ان کی جان و عزت نفس پر کوئی دست درازی نہیں کرسکتا۔
خیال رہے کہ اسلام نےانسانی زندگی کے ہر شعبے میں غیر مسلموں کے ساتھ عمدہ برتائو کرنے کا درس دیا ہے اور انسانی حقوق کے نفاذ میں ان کے ساتھ مکمل عدل و انصاف سے کام لیا ہے۔ بلکہ اس سلسلے میں جس فراخ دلی اور عظیم رواداری کا نمونہ پیش کیا ہے وہ پوری دنیا کے لئے قابل عمل ہے۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں فتح حیرہ کے موقع پر جو معاہدہ ہو ا تھا اس میں تحریر تھا کہ :
’’کوئی بوڑھا جو کام سے معذور ہو جائے یا کوئی سخت مرض میں مبتلا ہوکر مجبور ہوجائے یا جو مالدار ہو پھر ایسا غریب ہوجائے کہ خیرات کھانے لگے ایسے لو گوں سے جزیہ نہیں لیا جائے گا اور جب تک وہ زندہ رہیں ان کے اہل و عیال کے اخراجات مسلمانوں کے بیت المال سے پورے کئے جائیں۔ جب تک ان کا قیام دارالھجرت اور دارالاسلام میں رہے‘‘۔۲۸
کسی مسلمان کے معذور یا مجبور ہوجانے پر شریعت اسلامی بیت المال سے اس کی کفالت و تربیت کا حکم دیتا ہے اور یہی حکم ذمی غیر مسلم کے لئے ہے۔ چنانچہ حضرت سعد بن المسیب سے مروی ہے ’’رسول اللہ ﷺ نے یہودیوںکے ایک گھرانے کو صدقہ دیا اور حضوراکرم ﷺ کے وصال کے بعد بھی وہ انہیں دیا جاتا رہا۔۲۹
اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے : ’’تمام اہل مذاہب پر صدقۂ و خیرات کرو‘‘۔ ۳۰
اس طرح اسلام نے محتاجوں و معذوروں کی خدمت کے لئے زندگی کے تمام شعبوں میں حسن سلوک کا درس دیا ہے اور مسلم یا غیر مسلم ، قومی یا غیر قومی ، نسلی یا غیر نسلی اور ملکی یا غیر ملکی کا فرق کئے بغیر سب کے ساتھ یکساں سلوک کئے جانے کا حکم دیا ہے۔
ذریعۂ معاش و روزگار بھی انسانی زندگی کا اہم جزو لا ینفک ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو مسلمانوں سے کاروبار کرنے کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ہے اور ان کے خوردو نوش کے خیال رکھنے کی بھی خاص تاکید فرمائی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور ﷺ کی وفات اس حال میں ہوئی کہ آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس ۳۰؍صاع جو کے عوض رھن تھی۔۳۱
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقام سے گذر ہوا تو آپ نے ایک بوڑھے نابینا یہودی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس سے پوچھاتمہیں اس پر کس بات نے مجبور کیا اس نے کہا کہ بوڑھا ضرورت مند ہوں اور جزیہ بھی دینا ہے،حضرت عمر نے اس کا ہاتھ پکڑااور گھر لائے اور اس کو اپنے گھر سے کچھ دیا پھر اس کو بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ اس کااور اس جیسے لوگوں کا خیال رکھو اور ان سے جزیہ لینا موقوف کرو کیونکہ یہ کوئی انصاف کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے جزیہ وصول کیا اور اب بڑھاپے میں ان کو اس طرح ر سوا کریں۔۳۲
عام طور سے دیکھا جاتا ہے کہ مسلمان بچوں کے ساتھ تو ہم کسی قدر محبت وشفقت کا برتائو کرتے ہیں لیکن کفار کے بچوں کے ساتھ ہمار جو طرز عمل ہوتا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ ان کی جانب تو کوئی نظرمحبت و التفات ہوتی ہی نہیں لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ?ٔحسنہ اور حسنِ سلوک سے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی محبت ونرمی کی تلقین فرمائی ہے۔ ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ کی خدمت میں تھا وہ ایک بار بیمار ہوگیا۔ آپ نے از خود تشریف لاکر اس کی عیادت فرمائی ، اس بچے کے سرہانے بیٹھے ، پھرا س بچے سے فرمایا اسلام قبول کرو اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی ، والد نے بھی کہا ابوالقاسم کی اطاعت کر لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا۔ آپ یہ کہتے ہوئے نکلے ’’تما م تعریفیں اللہ کے لئے جس نے اس کو آگ سے بچالیا ‘‘ ۔۳۳
اس حدیث سے ظاہر ہوتاہے کہ بچے پر شفقت و محبت کی جائے چاہے وہ بچہ کافر کا ہی کیوں نہ ہو۔ نیز اس حدیث سے جہاں غیر مسلم بچوں کے ساتھ محبت وشفقت کا برتائو کرنے کا سبق ملتا ہے وہاں غیر مسلم کی عیادت کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے :
’’یہودی اور نصرانی کی عیادت میں کوئی حرج نہیں ہے اس لئے کہ یہ ان کے حق میںایک طرح کی بھلائی اور حسن سلوک ہے اس سے ہمیں منع نہیں کیا گیا ہے‘‘۔۳۴
اسی طرح اگر کسی غیرمسلم کا انتقال ہو جائے تو انسانیت کے ناطے اس کی تعزیت کے لئے جانے سے بھی اسلام منع نہیں کرتا۔ چنانچہ رد المختار علی الدر المختار میں ہے کہ ’’ کسی یہودی یا مجوسی کے بچے کا انتقال ہوجائے تو اس کے مسلمان پڑوسی کو اس کی تعزیت کرنی چاہئے اور کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا بہت اچھاجانشین عطا فرمائے اور آپ کے حالات کو بہتر بنائے۔ ۳۵
انسانی زندگی اور انسانی معاشرہ میں پڑوس کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔ ہر انسان اور ہر شئی کا کوئی نہ کوئی یا کچھ نہ کچھ پڑوس ضرور ہوتا ہے مثلاً ایک انسان دوسرے انسان کا پڑوسی ، ایک گھر دوسرے گھر کا پڑوسی ، ایک خاندان دوسرے خاندان کا پڑوسی ، ایک محلہ دوسرے محلہ کا پڑوسی، ایک شہر دوسرے شہر کا پڑوسی، اور ایک ملک دوسرے ملک کا پڑوسی ہوتا ہے۔ اسلام نے پڑوسیوں کو جو انسانی حقوق عطا فرمائے ہیں اور ان کے ساتھ جس حسنِ سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دی ہے وہ سب کے لئے عام ہے اس میںمسلم یا غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے :
’’اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور شتہ داروں سے اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی سے‘‘۔۳۶
اسی طرح حدیث شریف میں ہے :
’’جو شخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے پڑوسی کو اذیت نہیں پہونچانا چاہئے ‘‘۔۳۷
’’اللہ کی قسم وہ ایمان والا نہیں عرض کیا گیا یا رسول اللہ کون؟ فرمایا جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے بے خوف نہیں۔۳۸
’’جوشخص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ‘‘۔۳۹
’’حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ بے شک میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ جب تم سالن پکائو تو اس میں شوربہ زیادہ کرو اور پھر اپنے پڑوسیوں کے گھر والوں کو دیکھو اور اچھی چیز ان کو بھی بھیجو‘‘۔۴۰
مذکورہ بالا فرمان خداوندی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پڑوسی کے تعلق سے جو حسن اخلاق اور عمدہ برتائو کی ہدایت و نصیحت کی گئی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ حکم مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئےیکساں ہے۔
ہندو دھر م میںمحبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری
عالم انسانی کےدیگر مذاہب کی طرح قدیم ہندو دھرم میں بھی حیات انسانی کے مختلف شعبہ جات ،حالات اور معاملات کے پیش نظر جدا گانہ زاویوں سے محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری جیسی اخلاقی تعلیمات پر خاص توجہ دی گئی ہے۔کیوں کہ قدیم ہندو دھرم گرنتھوں وشاستروں کی روشنی میں انسانی اقدار اوراخلاقی تعلیمات کے بغیر باہمی سماجی میل جول ،رہن سہن اور آپسی برتاؤ وسلوک بحسن وخوبی عمل میں نہیں آسکتے۔
اسی لئے ہندو دھرم میں تعلیم دی گئی ہےکہ ہر انسان دوسرے انسان کے ساتھ محبت وہمد ردی سے پیش آئے ،ان کی حفاظت کرے،انہیںمصیبت وتکلیف سے بچائے،آپس میں عداوت نہ رکھے،ایک دوسرے کے ساتھ اچھی گفتگو کرے اور ہمیشہ ایک دوسرے کا تعاون کرے۔چنانچہ ویدو ں کا فرمان ہے :
’’تم لوگ زیادہ بوڑھوں کا عزت واحترام کرو اور چھوٹے بچوں کو اور بڑے بھائی وبرہمن اور چھوٹے اور نیچ کو بھی سلام کرو۔اور بھائی ،چھتری ،ویش اور ڈھیٹ پن چھوڑے ہوئے اچھی عادت والے کو سلام کرو۔اور نیچ کام کرنے والے شودروملیچھ اور آسمان میں ہوئے بادل کی طرح موجود سخی انسان کو سلام کرو‘‘۔۴۱
’’ایک دوسرے کی ہمیشہ حفاظت کرنا اور مدد کرنا انسانوں کا خاص فریضہ ہے‘‘۔۴۲
’’ان میں نہ تو کوئی بڑا ہے اور نہ ہی چھوٹا۔آپس میں وہ سب بھائی بھائی ہیں‘‘۔۴۳
ویدوں کے مذکورہ بالا منتروں میں واـضح طور پر انسانی اقدار، محبت وہمدردی اور اخوت ورواداری کی تعلیم دی گئی ہے ،یہی تعلیم دیگر دھرم شاستروں میں بھی نظر آتی ہے ۔چنانچہ یوگ وششٹھ میں ہے :
’’یہاں اس دنیا میں سب تکالیف کو مٹانے کے لئے صرف اور صرف دوسرے کی بھلائی کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘‘۔۴۴
گیتا کا قول ہے کہ ایساشخص ایشو ر کو بہت پیارا ہے:
’’جو کسی جاندارسے حسد نہیں کرتا سب کا دوست ہے اور مہربان ہے‘‘۔۴۵
یہی تعلیم رام چرترمانس میں دی گئی ہے :
’’دوسروں کی بھلائی سے بڑھ کر کوئی دھرم نہیںہے اور دوسروں کو تکلیف پہونچانے سے بڑھکر کوئی پاپ نہیں ہے‘‘۔۴۶
مہا کوی تلسی داس نے اپنی شاہکار تصنیف رام چرتر مانس کی اسی تعلیم کو ایک دوسرے مقام پراس طرح بیان کیا ہے:
چار وید چھے شاستر میں بات ملی ہے دوئے دکھ دینے دکھ ہوت ہے سکھ دینے سکھ ہوئے
منو اسمرتی کا فرمان ہے :
’’خود دکھی ہوتے ہوئے بھی کسی کا دل نہ دکھائے،دوسرے سے دشمنی کی سوچ بھی نہ رکھے اور ایسی بات بھی نہ بولے جس سے دوسروں کو تکلیف ہو‘‘۔۴۷
انسان ہو یا حیوان کسی کو تکلیف پہنچانے کی کوشش نہ کرنا اور ایسا کوئی فعل انجام نہ دینا جس سے دوسرے کے دل کو چوٹ پہونچے ،قدیم ہندو دھرم گرنتھوں کی تعلیمات کی رو سے انسان کا بنیادی اخلاقی فریضہ ہے۔اس لئے خود تکلیف میں ہونے پر بھی کسی کو تکلیف نہ دے اور ایسی بات ہر گز نہ کرے جس سے دوسرا شخص پریشان ہو۔اور یہی وہ تعلیمات ہیں جوانسانی محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کے لئے بنیادی عناصر کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ہندو دھرم گرنتھوں میں رحم وکرم aاورمحبت و ہمدردی کی تعلیم دیتے ہوئے اور ظلم وستم کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ معا شرہ میں ظلم وستم کی ترقی سماجی نظام کو درہم برہم کردیتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ خدا کی تمام مخلوق پر رحم وکرم کریں اور ان سے محبت وہمدردی کا برتاؤ کریںاور ان پرکسی طرح کا ظلم ہر گز نہ کریں۔چنانچہمہا بھارت میں مذکور ہے :
’’رحم وکرم سب سے عظیم دھرم ہے۔رحم وکرم سب سے بڑی عبادت ہے۔رحم وکرم سب سے بڑا سچ ہے کیوں کہ اسی سے دھرم کی ترقی ہوتی ہے‘‘۔۴۸
’’دنیا میں اپنی جان سے زیادہ پیاری کوئی دوسری چیز نہیں ہے اس لئے انسان جیسے اپنے اوپر رحم چاہتا ہے اسی طرح دوسروں پر بھی دیا کرے‘‘۔۴۹
انہیں تعلیمات کودیگر دھرم گرنتھوںمیں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
’’غیر ہو یا اپنا،بھائی رشتے دار ہو یا دوست،دشمن ہو یا حاسد،جو بھی کوئی مصیبت میں پڑا ہو اس کو مصیبت میں دیکھ کر اس کی حفاظت کرنے کا نام ہے رحم ومہربانی‘‘ ۔۵۰
’’اے انسانو!میں(ایشور )محبت، اتفاق رائے اور عیبوں سے دوری تمہارے لئے پیدا کرتا ہوں۔پیدا شدہ بچھڑے کو جس طرح گائے پیار کرتی ہے اسی طرح تم سب آپس میں محبت رکھو‘‘۔۵۱
’’تمہارے ارادے ایک جیسے ہوں۔تمہارے دل ایک جیسے ہوں،تمہارے خیال ایک جیسے ہوں،جس سے تمہاری تنظیم ہو‘‘۔۵۲
اس طرح مذکورہ بالا اشلوکوں کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی طرح قدیم ہندو دھرم گرنتھوں میںبھی بقائے باہم، ایکتا وبھائی چارے ۔ باہمی محبت وہمدردی ،رحم وکرم وعدم ظلم وستم کی مختلف انداز میں ہدایت ونصیحت کی گئی ہے۔
معافی وصبروضبط کااصول بھی باہمی محبت وہمد ردی اور اخوت ورواداری کے لئے انتہائی ضروری ہےجو کہ قدیم ہندودھرم گرنتھوں میں بخوبی پایاجاتا ہے۔ چنانچہ بالمیک رامائن میںکہاگیاہے :
’’عورتوں اور مردوں کا اگر کوئی حقیقی زیور ہے، تو وہ معافی ہی ہے۔ معافی ہی دان ہے معافی ہی سچ ہے، معافی ہی یگ ہے معافی نیکی ہے، معافی ہی دھرم ہے۔ یہ سارا سنسار معافی سے ہی گھرا ہوا ہے۔۵۳
مہابھارت میںمعافی کی اہمیت کو اس طرح بیان کیاگیاہے:
’’لالچ سے غصہ پیداہوتا ہے اور دوسرے کے عیب دیکھنے سے وہ بڑھتا ہے اور معاف کرنے سے وہ رُک جاتا ہے اور معافی سے ہی وہ ٹھنڈا ہوجاتاہے‘‘۔۵۴
اور بالمیک رامائن میں غصہ پی جانے والوں کی تعریف وترجمانی اس طرح کی گئی ہے :
’’حقیقت میںوہ مہاتما لوگ خوش نصیب ہیں جواپنے اندر اُٹھے ہوئے غصہ کو اس طرح بجھادیتے ہیںجس طرح جلتی ہوئی آگ کو پانی‘‘۔۵۵
انسانی معاشرہ کے امن وسکون ،باہمیمحبت وہمد ردی ، اخوت ورواداری کے فروغ اور خوشگوار ماحول کے ارتقامیںنرم گفتاری وشیریں کلامی کابھی مرکزی کردار ہوتا ہے اس کے تعلق سے ہندوشاستروں میں واضح کیاگیاہے کہ گفتگو کی شیرینی سے جنتی آسانی سے دوسرے کے دل کو جیتا جاسکتاہے اتنی آسانی سے کسی اور طریقۂ کار سے نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ گفتار کی شیرینی سے بگڑی باتیں بن جاتی ہیں، ٹوٹے تعلقات سنبھل جاتے ہیں اور ناامیدی میں امید کی کرن بیدارہوجاتی ہے۔ جب کہ اس کے برعکس تلخ کلامی وسخت گوئی سے بنی ہوئی باتیں بگڑجاتی ہیں، جڑے ہوئے تعلقات بکھرجاتے ہیں اور امید ناامیدی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس لئے انسانی سماج میں پیارومحبت وہمدردی کاجذبہ برقرار رکھنے کے لئے اشدضروری ہے کہ سخت کلامی وترش روئی کاہرگز مظاہرہ نہ کیاجائے۔
قدیم ہندودھرم گرنتھوں میںنرم گفتاری وشیریں کلامی کی مختلف انداز میں تعلیم دی گئی ہے۔ کہیں دعائیہ انداز میں اس کی آرزو کی گئی ہے اور کہیں اس کے فوائد ونقصانات کے ضمن میںاس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ چنانچہ ویدوں میںمذکورہے :
اے ایشور! ہماری زندگی مٹھاس سے بھرپور ہو، آپ اپنے اثر سے پوری طرح ہماری زندگی کو مٹھاس سے بھر پور کردیںکیونکہ مٹھاس ہی پیار، لگائو، بھلائی اور سخاوت کی بنیاد ہے۔ اسی سے ہر کام میں کشش پیدا ہوتی ہے۔ ۵۶
’’میری زبان کے اگلے حصے میں مٹھاس ہو اور زبان کی جڑمیں مٹھاس ہو، اے شیرینی! میرے عمل میں تیرا مقام ہو اور میرے دل کے اندر بھی تو پہنچ جا ،میرا آناجانا میٹھاہو، میں جو زبان بولوں وہ میٹھی ہو اور میں خود مٹھاس کی مورتی بن جائوں‘‘۔۵۷
’’دعا پر توجہ دینے والے، سندر بات یاتعریف کے خواہش مند او ربارعب اِندر کے لئے گھی اور شہد سے بھی زیادہ ذائقہ دار اور خوبصورت بات بولو‘‘۔۵۸
’’بری حالت دور ہو۔ آواز طاقت ور اور میٹھی ہو۔ بول چال کی صلاحیت مٹھاس سے بھری ہو۔ میں شیریں کلام بولوں‘۔۵۹
مذکورہ بالا منتروں میں نرم گفتاری وشیریں کلامی کی اہمیت کو بیان کیاگیاہے اور بتایاگیا ہے کہ یہ زندگی کو پاک وباوقار بناتی ہے۔ اور یہ سب سے اعلیٰ تعلیم ہے جو دشمن کو بھی دوست بنانے کا ہنر رکھتی ہے۔ اس کے برعکس سخت گفتار وترش کلام کے جونتائج ہیں ان کے تعلق سےکہاگیاہے کہ :
’’اگر سماج میںہر دل عزیز ہوناچاہتے ہواور سب کو اپنے بس میںکرنا چاہتے ہو تو دوسروں کی مذمت اور سخت کلامی چھوڑدو‘‘۔۶۰
اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کی طرح قدیم ہندودھرم میں بھی لوگوں سے نرمی وشیریں انداز میں گفتگو کرنے کی اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔
قدیم ہندو دھرم گرنتھوں کے مطابق مثالی سماجی تنظیم یا پر امن انسانی سماج کی بنیا دمحبت و ہمدردی اورایکتا و بھائی چارہ ہے۔اسی جذبہ کے تحت ہی مختلف افراد وتنظیموں کو ایکتا کی لڑی میں پرویا جا سکتا ہے۔تنظیم کا ہر فرد کل کا نمائندہ ہوتا ہے۔اور پوری تنظیم اس کی طاقت ہوتی ہے۔تنظیم میں کوئی شخص خود کو تنہا یا بے سہارا محسوس نہیں کرتا ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ سماج کو منظم کیا جائے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ سماج میں باہمی ایکتا وبھائی چارہ اور آپسی محبت وہمدردی کا جذبہ بیدار ہو۔کیوں کہ جہاں ہمدردی وبھلائی ہوتی ہے وہاں قلبی اتحادہوتاہے۔اور باہمی تعاون کا جذبہ ہی سماج کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔انہیں وجوہات کے پیش نظر قدیم ہندو دھرم گرنتھوں نے ایکتا وبھائی چارے اور باہمی محبت وہمدردی کی اخلاقی تعلیم پر کافی زور دیا ہے۔اور کہاہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کی حفاظت کرے۔انہیں مصیبت وتکلیف سے بچائے،آپس میں عداوت نہ رکھے،ایک دوسرے کے ساتھ اچھی گفتگو کرے اور ہمیشہ ایک دوسرے کا تعاون کرے۔چنانچہ ویدو ں میں دعائیہ انداز میں تعلیم دی گئی ہے کہ:
ہمیں دوست ، دشمن، جان ، پہچان یا انجان لوگوں سے ڈرنہ ہو اور رات سے کوئی ڈرنہ ہو، سارا سنسار ہمارا دوست ہو اور دنیا میں رہنے والے سارے جاندار ہمارے دوست ہوں۔۶۱
’’آپ سب کی سوچ اور خیال ایک ہوں آپ سب کی مجلس یا جماعت ایک ہو، آپ سب کے دل بھی ایک ہی فکر وخیال سے بندھے ہوں، آپ سب کامن بھی ایک ہو اس لئے تو میں آپ سب کو ایکتا واتحاد کا یہ راز بتارہا ہوں۔ ایک ہی نذر سے تم سب کے یگ کو پورا کرتا ہوں‘‘۔ ۶۲
’’ آپس میں میل جول دوستی قائم کرو، آپس میں بول چال یا مذہب کی چرچا کرو خود کو نیک اورعمدہ اخلاق سے مزین کرو جیسے پہلے زمانے کے بزرگ لوگ اپنے فرائض کے حصوں کو ہم خیال ہوکر آپس میں طے کرکے تقسیم کرلیتے تھے ویسے ہی تم بھی کرو‘‘۔۶۳
’’اے انسانو!میںایشور محبت، اتفاق رائے اور عیبوں سے دوری تمہارے لئے پیدا کرتا ہوں۔پیدا شدہ بچھڑے کو جس طرح گائے پیار کرتی ہے اسی طرح تم سب آپس میں محبت رکھو‘‘۔۶۴
’’تمہارے پانی پینے کا مقام ایک ہو،تمہارے طعام کا مقام ایک ہو،تمہیں ایک بندھن میں ساتھ ساتھ جوڑتا ہوں‘‘۔۶۵
’’آپس میں ایک دوسرے سے پیاری بات بولتے ہوئے آگے بڑھومیں تمہیں دوسروں کو بھلا کرنے والا اور اعلیٰ خیالات سے مزین کرتا ہوں‘‘۔۶۶
’’ تم سب کے سارے مقاصد اور خواہشات کی لگن ایک ہی سمت میں ہو، تم سب کے دماغ ایک ہی طرح کی فکر و سوچ سے مالا مال ہوں، تم سب کا من ایک ہو، جس سے تمہاری دوستی پکی اور مضبوط رہے‘‘۔۶۷
’’ان میں نہ تو کوئی بڑا ہے اور نہ ہی چھوٹا۔آپس میں وہ سب بھائی بھائی ہیں‘‘۔۶۸
دنیا کے اکثر مذاہب میں انسانی سماج کو ظلم و ستم ، شر و فساد، غصب و استحصال، قتل و خونریزی سے محفوظ ومامون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیےمختلف قسم کے احکام و قوانین مقررکئے گئے ہیں۔ ان قوانین و اصول کے ڈرسے جہاں ایک طرف لوگ جرائم کے ارتکاب سے لرزاں رہتے ہیں وہیں دوسری طرف انسانی معاشرہ امن و سلامتی سے زندگی بسر کرتا ہے ۔ اسی مقصد کے پیش نظر دین اسلام اور قدیم ہندو دھرم نے بھی کچھ احکام بیان فرمائے ہیں اور ان پر سختی کے ساتھ عمل کرنے کی تاکید فرمائی ہے، جو اسلام میں حدود و تعزیرات اور قدیم ہندو دھرم میں دنڈ وپراشچت کے نام سے مشہور ہیں۔
قدیم ہندو دھرم گرنتھوں کے مطابق امن و سلامتی بھنگ کرنے والے، انسانی معاشرہ کو مختلف قسم کے مہا پاپوں سے پراگندہ کرنے والے اور ظلم و ستم و قتل و خونریزی وغیرہ کے ذریعہ لوگوں کی عزت و آبرو و جان و مال کا استحصال کرنے والے جرائم پیشہ افرد کے لیئے دنڈ و پراشچت کے قوانین و احکام کا نافذ کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ ڈنڈو پر اشچت کے خوف سے ہی جرائم پیشہ لوگ مُہلک و خطرناک جرائم سے باز رہ سکتے ہیں اور پورا انسانی سماج چین و سکون سے زندگی بسر کر سکتا ہے۔چنانچہ منومہاراج کہتے ہیں کہ:
’’ایشور نے سبھی جانداروں کے محافظ راجا کے سبھی کاموں کی کامیابی کے لیے قوانین سزا کو پہلے بنایا ہے۔ اس سزا کے ڈرے سے متحرک اور غیر متحرک سبھی جاندار آرام حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں اور اپنے فرض سے منہ نہیں موڑتے‘‘۔۶۹
’’سزا ہی سبھی رعایا پرحکومت کرتی ہے،سزا ہی سب کی حفاظت کرتی ہے،سزا ہی سوئے ہوئے کو جگاتی ہے،اس لیے عقلمندانسان سزاکو ہی دھرم کہتے ہیں،سوچ سمجھ کر دیا ہوا دنڈ سبھی رعایا کو خوش کرتا ہے۔۷۰
’’اگر راجا سستی پن چھوڑ کر سزا دینے لائق مجرموں کو صحیح دنڈ نہ دے تو طاقت ور کمزوروں کو لوہے کے کانٹے میں پکڑی ہوئی مچھلیوں کی طرح بھون کر کھا جائے۔ دنڈ کا مناسب استعمال نہ ہو تو سبھی طبقے معیوب و مخدوش ہو جائیں دھرم کے سبھی باندھ ٹوٹ جائیں اور سب لوگوں میں بغاوت ہو جائے‘‘۔۷۱
مختصر یہ کہ اسلام کی طرح ہندو دھرم میں بھی میںانسانی سماج کو ظلم و ستم ، شر و فساد، غصب و استحصال، قتل و خونریزی سے محفوظ ومامو ن کرنے اوراس کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لئے حکم دیا گیا ہےکہ مجرم وفسادی کی کوئی رعایت نہیں کرنی چاہئے اور ظالم و قاتل کو ہر گزمعاف نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ’’منو اسمرتی‘‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ:
’’گرو، بالک، بزرگ یا بہت سی مذہبی کتابوں کا عالم براہمن بھی ظالم یا قاتل ہوکر مارنے کے لئےآئے تو اُس کو بنا سوچے مار ڈالیں‘‘۔۷۲
’’سب کے سامنے یا تنہائی میں جو کسی کا خون کرنے کو اُتاولا ہو اس کا قتل کرنے میں کوئی پاپ نہیں ہے۔ کیوں کہ ظالم جس کو مارنا چاہتا ہے اس کے غصّے سے اس کاظلم بڑھتا ہے‘‘۔۷۳
منو مہاراج نے قاتل اور ظالم شخص کے لئے قتل کی سزا بیان کی ہے لیکن دیگردھرم گرنتھوں میں قتل کے علاوہ دوسری سزائیں دینے کا بھی حکم پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ارتھ شاستر میں ہے:
’’قدیم شاستروں کے اصولوں کے مطابق طرح طرح کی تکالیف اور غم دے کر قتل کی سزا دینا چاہئے لیکن اگر قاتل نے بے رحمی کے ساتھ قتل نہ کیا ہو تو اس کو صرف قتل کی سزا ملنی چاہئے۔ ۷۴
خلاصہ یہ کہ قدیم ہندو دھرم گرنتھوں میں بہت ہی تاکید کے ساتھ مختلف مقامات پرباہمی محبت وہمدردی ،اخوت و رواداری اور امن و شانتی کی ہدایت ونصیحت کی گئی ہےاور ظلم وستم ، قتل و خونریزی اورفتنہ پروری کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔
ہندو اور مسلمان دونوں ایک ہزار سالوں سے ہندوستان میں رہتے چلے آ رہے ہیں لیکن ابھی تک ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکے ۔ ہندو کے لئے مسلمان ایک راز ہے اور مسلمان کے لئے ہندو ایک معمّہ۔ نہ ہندو کو اتنی فرصت ہے کہ اسلام کے حقائق کی چھان بین کرے نہ مسلمان کواتنی مہلت کہ ہندو دھرم کے حقائق کی تہہ تک پہونچے۔ دونوں ایک دوسرے کے اندر بے سر وپیر کی باتوں کا تصور کرکے لا یعنی بحث پر آمادہ رہتے ہیںاور بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہوتے ہیں۔بالخصوص آج ہندو اور مسلمانوں کے آپسی تعلقات و روابط نے کافی پریشان کن شکل اختیار کر لی ہے۔ دونوں مذہبی گروہوں کے درمیان بہت سی اخلاقی قدریں پامال ہو گئی ہیں ، قومی یکجہتی ، باہمی ہمدردی، مذہبی نفرت و عداوت کا شکار ہوگئی ہیں،اس لئے ان کو دوبارہ پرانی ڈگر پر لانا ،قدیم رشتوں کو بحال کرنااور گنگا جمنی ٖفضا کو پروان چڑھاناہماری اولین ذمہ داری ہے۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر میں نے اپنا یہ مقالہ تحریر کیا ہے۔
nvn
حوالہ جات
۱۔ سورۃ المائدہ، آیت ۲
۲ ۔ سورۃ الانفال، آیت ۱
۳ ۔ سورۃ النحل، آیت ۹۰
۴ ۔ سنن ترمذی ، حدیث ۱۹۲۴
۵ ۔ مسنداحمد ،حدیث ۸۱۹۴
۶ ۔ صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث ۲۲۳۰
۷ ۔ المعجم الکبیر للطبرانی ، حدیث ۹۸ ۹۱
۸ ۔ سورۃ الشوریٰ، آیت ۸
۹ ۔ سورۃ البقرہ، آیت ۲۷۹
۱۰ ۔ سورۃ الشوریٰ، آیت ۲۵
۱۱ ۔ سورۃ المائدہ، آیت ۳۲
۱۲ ۔ سورۃ البقرہ، آیت ۱۹۴
۱۳ ۔ مسلم شریف، حدیث ۶۵۷۲ / مشکوٰۃ المصابیح،حدیث ۵۱۳۵
۱۴ ۔ صحیح بخاری، ۶/۲۵۵۰، حدیث ۶۵۵۲
۱۵ ۔ بخاری شریف، کتاب الدیات باب ۲۵، حدیث ۱۸۰۶
۱۶ ۔ سنن ابو دائود، کتاب الخراج و الفئی، باب تعشیر اہل الذمہ، حدیث ۶۹۱۴
۱۷ ۔ ڈاکٹر طاہر القادری ، اسلام میں انسانی حقوق کا تصور، ادبی دنیا ، دہلی ، ۲۰۰۷ ء ،ص ۵۵
۱۸ ۔ سورۃ الحجرات، آیت ۱۰
۱۹ ۔ سورۃ التوبہ، آیت ۷۱
۲۰ ۔ صحیح بخاری، حدیث ۴۸۱
۲۱ ۔ صحیح بخاری، حدیث ۶۰۱۱ / صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث ۶۵۸۹
۲۲ ۔ صحیح مسلم کتاب الایمان، حدیث ۵۴
۲۳ ۔ صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب ۷، حدیث ۱۲
۲۴ ۔ سورۃالمائدہ ،آیت ۵
۲۵ ۔ عبد الملک بن ہشام بصری ، سیرت ابن ہشام ،مصر ، ۱۹۸۶ ء ، جلد ۴ص۹۴ ۱/ صحیح بخاری، کتاب المغازی ،حدیث ۴۵۲
ََـؐ؍؍ حافظ عمادالدین ،ابن کثیر ، البدایہ و النہایۃ ، دارالاشاعت ، کراچی،۲۰۰۸ ء، جلد ۳ ؍، ص ۴۰
ََـؐ؍؍ علی بن ابی بکر ہیثمی ، مجمع الزوائد ، دار المنہاج ، جدہ ، ۲۰۱۵ ء ، جلد ۶ /۱۱۵ ، حدیث ۱۰۰۰۷
۲۶ ۔ سور?ۃالممتحنہ، آیت ۸،۹
۲۷ ۔ صحیح بخاری ، کتاب الادب ،حدیث ۵۹۷۸
۲۸ ۔ خالد سیف اللہ رحمانی، انسانی حقوق اور اسلامی نقطۂ?نظر ، ایفا پبلیکیشنز،نئی دہلی ، ۲۰۱۱ ء ، ص ۲۲۶
۲۹ ۔ امام شہاب الدین ابن حجر عسقلانی ، الدرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ، دارالمعرفہ، بیروت لبنان ، جلد ا ،ص ۲۶۶
۳۰ ۔ علامہ جمال الدین ، عبداللہ بن یوسف ، نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ، المکتبۃ المکّیہ ،جدّہ ، جلد ۲ ص ۳۹۸
۳۱ ۔ صحیح بخاری ،کتاب الجہادوالسیر ، حدیث ۲۹۱۶
۳۲ ۔ المغنی ، ابن قدامہ ، دارالفکر بیروت لبنان ۱۴۰۵ء، جلد ۸ ، ص۰۹ ۵ / امام ابو یوسف ، کتاب الخراج ،دارا لمعرفہ ، بیروت لبنان ،ص ۱۵۰
۳۳ ۔ صحیح بخاری ، باب اذااسلم الصبی فمات ، حدیث۱۳۵۶
۳۴ ۔ محمد امین ابن عابدین ،رد المحتار علی الدرالمختار ، دار الکتب العلمیّہ ، ۲۰۰۳ ء ، جلد ۵، ص ۱۴۳
۳۵ ۔ رد المحتار علی الدرالمختار ، جلد ۵، ص۱۴۳
۳۶ ۔ سورۃ النساء ، آیت ۶۳
۳۷ ۔ صحیح بخاری ، حدیث۶۰۱۸
۳۸ ۔ صحیح بخاری ، حدیث۵۶۷۰
۳۹ ۔ صحیح بخاری ، حدیث۹۵۷
۴۰ ۔ صحیح مسلم ، کتاب البر ،باب الوصیۃ بالجار والاحسان ، حدیث۲۱۹۲
۴۱ ۔ یجروید،ادھیائے۱۶ ،منتر۳۲
۴۲ ۔ رِگوید ، منڈل ۶؍ سوکت ۷۵؍اشلوک۱۴
۴۳ ۔ رِگوید ، منڈل ۵؍ سوکت ۶۰؍اشلوک۵
۴۴ ۔ یوگ وشِسٹھ، اُتپتِّی پرکرنڑ، سرگ ۶ ، اشلوک ۱۴
۴۵ ۔ بھگوت گیتا، ادھیائے ۱۲ ، اشلوک ۱۳ ۔۱۴
۴۶ ۔ رام چرِتر مانس، اتّر کانڈ،دوہا ۴۰
۴۷ ۔ منو اسمرتی،ادھیائے۲ ،اشلوک ۱۶۱
۴۸ ۔ مہا بھارت ،شانتی پرو، ادھیائے ۱۳۹، اشلوک ۴۲
۴۹ ۔ مہا بھارت ،انو شاسن پرو، ادھیائے۱۱۵، اشلوک ۲۳
۵۰ ۔ اشٹادس اِسمِرتی ، بھاگ ۱ ؍اتری اِسمِرتی ، اشلوک ۴۱
۵۱ ۔ اتھرووید ،کانڈ ۳؍سوکت ۳۰؍ منتر ۱
۵۲ ۔ رِگوید ، منڈل ۱۰ ؍ سوکت ۱۹۱ ؍منتر۴
۵۳ ۔ بالمیکی راماین، بال