مجدد مائۃ حاضرہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی کی عملی عظمت کا ڈنکا عرب و عجم میں بج رہا ہے۔ پوری دنیا میں آپ کے فیض کا دریا رواں دواں ہے ،زمانہ کے مایہ ناز اہل علم حضرات نے بھی آپ کے علمی تبحر اور درجہ امامت کو خراج عقیدت پیش کیاہے اور آپ کو چودھویں صدی کا مجدد برحق تسلیم کیا ہے۔
آپ بزرگوں کی مقدس امانت یعنی حقیقی اسلام کے سچے محافظ، خالص عقیدئہ توحید و رسالت کے داعی اور سفید لباس میں ملبوس فتنہ پردازوں کے لئےپیغام اجل تھے ۔آپ برٹش گورنمنٹ کے پر فتن دور میں وقت کی اہم ترین ضرورت ثابت ہوئے سابقہ مجددین کی طرح چودھویں صدی میںآپ نے دین کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کاسد باب کیا اور ناموس رسالت کی پہریداری میں اپنی زندگی کا لمحہ لمحہ صرف فرمایا ۔
امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کوصاحب تصانیف کثیرہ ہونے کااعزا ز حاصل ہے ۔آپ کے اپنے فرمان کے مطابق تقریبا ۵۵؍ علوم و فنون میں کامل عبور حاصل تھا(جو آج کی تقسیم در تقسیم کے اعتبار سے سوسے متجاوزہے) بعض علوم و فنون کے موجد ہونے کا آپ نے شرف پایا تھا ۔ کئی علوم تو ایسے ہیں کہ آپ کے ساتھ ہی گویا دفن ہوگئے ۔آج ان علوم میں کامل ہونا تودرکنار کوئی ان کی معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی آج کہیں سننے میں نہیں آتا ۔ اہل علم کاارشادہےکہ گزشتہ دوصدیوں میں ایسا جامع عالم کوئی نظر نہیں آتا مذکورہ علوم وفنون میں سے کوئی علم وفن ایسا نہیں جس میں آپ کی متعدد تصانیف موجودنہ ہوں ۔تفسیر ، حدیث،اصول حدیث ، فقہ ، اصول فقہ ، منطق ، کلام ، تصوف وغیرہ کی تقریبا ڈیڑھ سو متداول کتابوں پر آپ نے حواشی لکھے اور تقریبا پانچ سو کتابیںان لوگوں کی رد میں ہیں،جو برٹش گورنمنٹ کے اشارے پر تفریق ملت اسلامیہ کاکام کررہے تھے اور جو اصلااح کے پردے میں مسلمانوں کی ایمانی قوت وشوکت کا شیرازہ بکھیررہے تھے ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی نوراللہ مرقدہ کے قلمی کارناموں میں سے سب سے نمایاںکارنامہ فقہی ہے۔آپ نے بے شمار سوالوںکے ایسے محققانہ جواب تحریر فرمائے کہ فقہ حنفی ذخیرہ میں قابل قدر اضافہ ہوا۔
مجد دمائۃ حاضرہ امام حمد رضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ جب عمر عزیز کی ۴۹؍ منزل طے کررہے تھے تو اس وقت آپ کے سامنے روحوں کی دنیاکے بارے میں سوال ہواکیا بعد رحلت روحیں گھروں میں آسکتی ہیں ؟یہ سوال مع جواب ، فتاویٰ رضویہ کے جلدچہارم کے ص:۲۳۱پر موجود ہے آپ نے اس سوال کے جواب میں ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا جس کا نام ’’تیان الارواح لدیارھم بعد الرواح‘‘ رکھا اس میں آپ نے متعدد احادیث واقوال فقہاوعرفا سے یہ ثابت کیا کہ :
(۱) برزخ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر انسا ن کو ، خواہ وہ مومن ہویا کافر ، ایک خاص قسم کی زندگی عطا فرمائی جاتی ہے یعنی جسم اور روح کا دور ہوتے ہوئے ایک گونہ تعلق باقی رکھا جاتا ہے ۔جس کے باعث یہ زندگی دنیاوی زندگی سے بڑی حد تک مختلف ہوتی ہے ۔
(۲) برزخی زندگی میں عام انسانوں کو چلنے پھر نےسے اگرچہ عاجز رکھا جاتا ہے لیکن ارواح مومنین کو اختیار ہوتا ہے کہ زمین و آسمان میں جہاں چاہیں جائیں، سیر کریں، جولان فرمائیں، اہلسنت و جماعت کے جمہور، مفسرین ، محدثین، فقہا اور متکلمین کا بھی یہی مذہب ہے ۔
لیکن اس مسئلے میں وہابی ، دیوبندی جن کے مذہب کی بنیاد ہی مقربین بارگاہ الٰہیہ کی توہین و تنقیص پر ہے۔انہوں نے اس مسئلہ میںاہلسنت و جماعت سے اختلاف کیا ۔اور یہ کہاکہ روحیں گھروں میں نہیں آتیں۔ چنانچہ دارالعلوم دیوبند کے فتویٰ نمبر 145542میںایک سوال کےجواب میں لکھا ہے کہ ’’مرنے کے بعد مردہ کی روح اپنے مقام علیین یا سجین میں پہنچادی جاتی ہے ، اسے دنیا میں نہیں بھیجا جاتاہے،مرنے کے بعد روح کا گھر واپس آنایا جمعرات کو آنا قرآن و صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے ‘‘
چنانچہ اسی خلجان کو دور کرنے کے لئے مستفتی نے ۱۳؍ شعبان المعظم ۱۳۲۱ھ کو مجدد دین و ملت امام احمد رضا خان بریلوی کی خدمت میںارسال کرتے ہوئے یہ استفتا پیش کیا کہ :
روح انسان کے جسم سے پرواز کرتی ہے ۔ بعد اس کےپھر بھی اپنے مکان پر آتی ہے یانہیں ۔اور کون کو ن دن روح اپنے مکان پر آیا کرتی ہے ۔ اور اگر آتی ہے تو منکر اس کاگنہ گار ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کس گناہ میں شامل ہے ۔؟
نیز مستفتی نے دوسرا سوال یہ بھی کیا کہ اور اس سے کچھ ثواب کی خواستگار خواہ قرآن مجید یا خیرات وغیرہ طعام ہو یا روپیہ ، پیسہ ہوتی ہے یا نہیں ۔؟
امام اہلسنت نے احقاق حق اور ابطال کی خاطر اپنے رہوار قلم کو میدان تحقیق میں اذن خرام دیااور ۱۳؍ شعبان ۱۳۲۱ھ کے ابتدائی چند ایام میں اتیان الارواح لدیارھم بعد الرواح کےنام سے ایک محققانہ رسالہ تیار کردیا ، جس میں منکرین کے تمام مزعومہ دلائل کے بخئے ادھیڑ دئے ۔ امام احمد رضا قدس سرہ کایہ رسالہ ’’ اتیان الارواح ‘‘ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور اسلاف کرام کی تصریحات کے ۲۰؍ حوالوں سےتیرہ عبارتیں نقل فرماکر روحوں کا گھروں میں آنا ثابت فرمادیا ۔ذیل میں امام احمد رضا کے پیش کردہ دلائل کے چند نمونے ملاحظ فرمائیں: ۔
رسول اللہ ﷺ کے ارشادات :
(۱) امام اجل عبداللہ بن مبارک و ابو بکر بھی ابی شیبہ استاذ بخاری و مسلم حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے موقوفا اور امام احمد مسند اور طبرانی معجم کبیر اورحاکم صحیح مستدرک اور ابو نعیم حلیہ میں بسند صحیح حضور پر نور سید عالم ﷺ سے مرفوعا راوی : وھذالفظ ابن المبارک قال ان الدنیا جنۃ الکافر و سجن المؤمن و انما مثل المومن حین تخرج نفسہ کمثل رجل کان فی السجن فاحرج منہ فجعل یتقلب فی الارض ویفسح فیھا ‘‘
بیشک دنیا کافر کی بہشت اور مسلمان کا قیدخانہ ہے ۔جب مسلمان کی جان نکلتی ہے تو اسکی مثال ایسی ہے ،جیسے کوئی شخص زندان میں تھا اب آزاد کردیا گیا۔تو زمین میں گشت کرنے اور بافراغت چلنے پھرنے لگا ۔
(۲) ابو بکر کی روایت یوں ہے :فاذا مات المومن یخلی سربہ یسرح حیث شاء‘‘جب مسلمان مرتا ہے اسکی راہ کھول دی جاتی ہے کہ جہاں چاہے جائے۔
(۳) ابن ابی الدنیا و بہیقی سعید بن مسیب رضی اللہ عنہما سے راوی حضرت سلمان فارسی و عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہما باہم ملے ۔ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر تم مجھ سے پہلے انتقال کرو تو مجھے خبر دینا کہ وہاں کیا پیش آیا ۔ کہا کیا زندے اور مردے بھی ملتے ہیں کہا : نعم امالمومنون فان ارواحھم فی الجنۃ وھی تذھب حیث شاءت‘‘ہاں مسلمانوں کی روحیںتو جنت میں ہوتی ہیں ۔ انہیں اختیار ہوتا ہے ،جہاں چاہیں جائیں۔
(۴) ابن المبارک کتاب الزہد وابو بکر ابن ابی الدنیا وابن مندہ سلمان رـضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی :قال ان ارواح المومنین فی برزخ من الارض تذھب حیث شاءت نفس الکافر فی سجین ‘‘ بیشک مسلمانوں کی روحیں زمین کے برزخ میں ہیں جہاں چاہتی ہیں جا تی ہیں اور کافر کی روح سجین میں مقید ہے ۔
اسلاف کرام کی تصریحات :۔
(۱) خاتمۃ المحدثین شیخ محقق علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شرح مشکوٰۃ شریف باب زیارۃ القبور میں فرماتے ہیں :در بعض روایات آمدہ است کہ روح میت می آید خانئہ خود راشب جمعہ ، پس نظر می کند کہ تصدق می کنند از دے یانہ‘‘۔
(۲) شیخ الاسلام کشف العطا عمالزم للموتیٰ علی الاحیا فصل ہشتم میں فرماتے ہیں : در عرائب و خزانہ نقل کردہ کہ ارواح مومنین می آیند خانہائے خود راہر شب جمعہ و روز عبد و روز عاشورہ و شب برات پس ایتادہ می شوند بیرون خانھائے خود و ندامی کندہر یکے بآواز بلند ازوہ گین اے اہل و اولاد من و نزدیکان من مہر بانی کنید بر ما بصدقہ‘‘
(۳) ابن ابی الدنیا اا مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے راوی: قال بلغنی ان ارواح المومنین مرسلۃ تذھب حیث شاءت۔مجھے حدیث پہونچی ہے کہ مسلمانوں کی روحیں آزاد ہیں جہاں چاہیں جاتی ہیں ۔
(۴)امام جلال الدین سیوطی شرح الصدور میں فرماتے ہیں : رجح ابن البران ارواح الشھداء فی الجبۃ و ارواح غیرھم علی افنیۃ القبور فتسرح حیث شاءت ‘‘امام ابو عمرا بن عبدالبر نے فرمایا : راجح یہ ہے کہ شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں ۔ اور مسلمانوں کی فنائے قبور پر جہاں چاہے آتی جاتی ہیں ۔
(۵)علامہ مناوی تیسیر شرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں : ان الروح اذا انخلعت من ھذا لھیکل و انفکت من القیود بالموت تجول الی حیث شاءت ‘‘ بیشک جب روح اس قالب سے جدا اور موت کے باعث قیدوں سے رہا ہوتی ہے ۔ جہاں چاہتی ہے جولان کرتی ہے ۔
(۶)قاضی ثناءاللہ بھی تذکرۃ الموتےٰ میں لکھتے ہیں : ارواح ایشاں ( یعنی اولیائے کرام قدست اسرار ہم ) از زمین و آسمان و بہشت ہر جاکہ خواہند می روند‘‘
(۷) خزانۃ الروایات میں ہے : عن بعض العلماءالمحققین ان الارواح تتخلص لیلۃ الجمعۃ و تنتش و افجاؤالی مقابرھم ثم جاؤافی بیوتھم‘‘بعــض علمائے محققین سے مروی ہے کہ روحیں شب جمعہ چھٹی پاتیں اور پھیلتی ہیں پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں ۔
(۸)دستور القضاۃ مسند صاحب ماتہ مسائل میں فتاویٰ امام نسفی سے ہے : ان ارواح المومنین یاتون فی کل لیلۃ الجمعۃ ویوم الجمعۃ فیقوومون بفناءبیوتھم ینادی کلواحد منھم بصوت خزین یااھلی ویا اولادی ویااقربائی اعطفوا علینا بالصدقۃ واذکرونا ولاتنسونا وارحمونا فی غربتنا الخ۔
بیشک مسلمانوں کی روحیں ہر روز و شب جمعہ اپنے گھر آتی اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو !اے میرے بچو! اے میرے عزیزو ! ہم پر صدقہ سے مہربانی کرو ، ہمیں یاد کرو بھول نہ جاؤ ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔
(۹) نیز خزانۃ الروایات مسند صاحب ماتہ مسائل میں ہے : عن ابن عباس رضاللہ تعالیٰ عنھما اذا کان یوم عببد او یوم جمعۃ او یوم عاشوراءولیلۃ النصف ما الشعبان تاتی الرواح الاموات ویقومون علی ابواب بیوتھم فیقولون ھل من احد یذکرنا ھل من احد یترحم علینا ھل من احد یذکر غربتنا ۔(الحدیث)بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے جب عید یا جمعہ یا عاشورہ کا دن یاشب برات ہوتی ہے ۔اموات کی روحیں آکر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں ۔ ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے ۔ہے کوئی کہ ہم پر ترس کھائے ۔ ہے کوئی کہ ہماری غربت کی یاددلائے ۔
مولوی رشید احمد گنگوہی نے اس تعلق سے براہین قاطعہ میں لکھا کہ روحوں کا گھر آنا عقائد سے تعلق رکھتا ہے ، جس کے ثبوت کے لئے ، مشہور و متواتر صحیح حدیثوں ، اور قطعیات درکار ہوں گے ۔(براہین قاطعہ ،ص۲۱۷)
امام احمد رضا خان بریلوی نے ان کی اس بے سروپا دعوی کے خلاف مستحکم دلائے دئے اور یہ ثابت کیایہ دعویٰ سرے سے غلط اور پادر ہوا ہے ۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں :
اسناد کا روایات صحیحہ مرفوعہ متصلۃ الاسناد میں حصر اور صحاح کا صرف کتب ستہ پر قصر جیساکہ صاحب مائۃ مسائل سے واقع ہوا صحیح نہیں ہے ۔ حدیث حسن بھی بالاجماع حجت ہے ، غیر عقائد و احکام حلال وحرام میں حدیث ضعیف بھی بالاجماع حجت ہے ، یہی ہمارے ائمہ کرام حنفیہ و جمہور ائمہ کے نزدیک حدیث مرسل غیر متصل الاسناد بھی حجت ہے ، ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک حدیث موقوف غیر مرفوع، قول صحابی بھی حجت ہے کہ یہ سب مسائل ادنیٰ طلبہ علم پر بھی روشن ہیں اور حدیث صحیح کا ان چھ کتابوں میں محصور ہونا بھی علم حدیث کے ابجد حوالوں پر بین و مہر سن ہے ۔ لیکن وہابیہ اس سے جاہل ہیں ۔
باقی رہا ضلال حال کے شیخ الضلال گنگوہی کا براہین قاطعہ میں زعم باطل ۔
اقول : اگر چہ ہر جملہ خبریہ جس میں کسی بات کا ایجاب یا سلب ہو، اگر چہ اسے نفیاواثباتا کسی طرح عقائد میں دخل نہ ہو ، نفی یا مثبت کسی پر اس نفی و اثبات کے سبب حکم ضلالت وگم راہی محتمل نہ ہو ، سب باب عقائد میں داخل ٹھہرے ، جس میں احادیث بخاری و مسلم بھی جب تک متواتر نہ ہوں نا مقبول ٹھہریں تو( اولا :: سیرومغازی و مناقب یہ علوم کے علوم سب گاؤ خورد،و دریا برد، ہوجائیں ، حالاںکہ علما تصریح فرماتے ہیں کہ ان علوم میں صحاح درکنار ضعاف بھی مقبول ۔
سیرت انسان العیون میں ہے : لا یخفی ان السیر تجمع الصحیح و السقیم والضعیف والبلاغ والمسرل و المنقطع والمعضل دون الموضوع ، و قال الامام احمد بن حنبل و غیرہ من الائمۃ اذا روینا فی الحلاال والحرام شددنا و اذا روینا فی الفضائل و نحوھا تساھلنا‘‘
ثانیا :علم رجال بھی مردود ہوجائے کہ وہ بھی علم ہے نہ علم و فضل عمل ، تو غیر قطعیات سب باطل و مہمل ۔
ثالثا:دوتہائی سے زائد بخاری و مسلم کی حدیثیںمحض باطل و مردوود قرار پا ئیں ۔
رابعا: عقائد واعمال میں تفرقہ جس پر اجماع ائمہ ہے ضائع (ہو)جائے ، کہ احکام حلال وحرام میں کیا اعتقاد حلت و حرمت نہیںلگا ہوا ہے ، اور وہ عمل نہیں بلکہ علم ہے ، تو کسی شے کو حرام یا حلال سمجھنے کے لیے بخاری و مسلم کی حدیثیں مردود ۔ اور جب حلال و حرام کچھ نہ جانیں تو اسے کیوں کریں اس سے کیوں بچیں ؟
خامسا: بلکہ فضائل اعمال میں بھی احادیث صحیحین کا مردود ہونا لازم ، حالاں کہ ان میں ضعیف حدیثیں بھی یہ سفیہہ، خود مقبول مانتا ہے ، ظاہر ہے کہ اس عمل میں یہ خوبی ہے ، اس پر یہ ثواب جاننا خود عمل نہیں بلکہ علم ہے اور علم باب عقائد سے ہے اور عقائد میں صحاح ظنیات مردود ۔
سادسا: اگلے صاحب ( صاحب مائۃ مسائل ) نے تو اتنی مہربانی کی تھی کہ حدیث صحیح مرفوع متصل السند مقبول رکھی تھی ، انھوں نے بخاری و مسلم بھی مردود کردیں ، جب تک قطعیات نہ ہوں کچھ نہ سنیں گے ۔
سابعا : ختم الٰہی کا ثمرہ دیکھیے، اسی براہین قاطعہ لما امراللہ بہ ان یوصل میں فضیلت علم محمد رسول اللہ ﷺ کو باب فضائل سے نکلوا کر تنگناے اعتقادیات میںداخل کرایا تاکہ صحیحین بخاری و مسلم کی حدیثیں بھی جو وسعت علم محمد رسول اللہ ﷺ پردال ہیں، مردود ٹھہریں اور وہیں اسی منہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے علم عظیم کی تنقیص کو محض بے اصل و بے سند حکایت سے سند لایا کہ شیخ عبدالحق روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ، حالاں کہ حضرت شیخ قدس سرہ نے اسے ہرگزروایت نہ کیا، بلکہ اعتراضاً ذکر کرکے صاف فرمادیا تھا کہ ’’ ایں سخن اصلے نہ دارد، وروایت بداں صحیح نہ شدہ است ‘‘ غرض محمد رسول اللہ ﷺ کے فضائل ماننے کو تو جب تک حدیث قطعی نہ ہو بخاری و مسلم بھی مردود اور معاذاللہ حضور کی تنقیص فضائل کے لیے بے اصل وبے سندو بے سروپا حکایت ،مقبول و محمود ۔ اور پھردعواے ایمان و امانت و دین ودیانت بدستور موجود ۔انا للہ و انا الیہ راجعون کذلک یطبع اللہ علی کل قلب متکبر جبار ۔
پھر اعلیٰ حضرت اپنے پورے بیان کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
بالجملہ یہ مسئلہ نہ باب عقائد سے نہ باب احکام وحلال و حرام سے۔ اسے جتنا ماننا چاہیے اس کے لیے اتنی سندیں کافی ووافی ، منکر اگر صرف انکار یقین کرے یعنی اس پر جزم و یقین نہیں تو ٹھیک ہے اور عامئہ مسائل سیرو مغازی و اخبار و فضائل ایسے ہی ہوتے ہیں ،اس کے باعث وہ مردوود نہیں قرار پاسکتے اور اگر دعواے نفی کرے، یعنی کہے مجھے معلوم وثابت ہے کہ روحیں نہیں آتیں تو، جھوٹا کذاب ہے ، بالفرض اگر ان روایات سے قطع نظر بھی تو غایت یہ کہ عدم ثبوت ہے نہ ثبوت عدم ، اور بے دلیل عدم ، ادعاے عدم محض تحکم وستم ، آنے کے بارے میں تو اتنی کتب علما کی عبارات اتنی روایات بھی ہیں ، نفی و انکار کے لیے کون سی روایت ہے ؟ کس حدیث میں آیا ہے کہ روحوںکا آنا باطل و غلط ہے ؟ تو ادعاے بے دلیل محض باطل و ذلیل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرماتے ہیں اعلیٰ حضرت :
کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ طرف مقابل پر روایات موجودہ صرف بر بناے ضعف مردود اور اپنی طرف روایت کا نام نہ نشان اور ادعاے نفی کا بلند نشان ۔ روحوں کا آنا اگر باب عقائد سے ہے تو نفیا و اثباتا ہر طرح اسی باب سے ہوگا ، اور دعوی نفی کے لیے بھی دلیل قطعی درکار ہوگی ، یا مسئلہ ایک طرف سےباب عقائد میں ہے کہ صحاح بھی مردود اور دوسری طرف سے ضروریات میں ہے کہ اصلاحاجت دلیل مفقود ۔
یہ ہے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا کمال تفقہ اور حسن استدلال کہ آپ نے ۲۰ ؍ دلیلوں سے اس مسئلہ کو ثابت فرما کر منکرین کے منہ پر ہمیشہ کے لئے تالہ بند کردیا‘‘۔