Mufti mutiurrahman

  • Home
  • Mufti mutiurrahman

Mufti mutiurrahman

image

کلام رضامیں ’’نور وحدت کا ٹکڑا‘‘

فقیہہ النفس مفتی محمد مطیع الرحمٰن رضوی
بانی :جامعہ نوریہ ،شام پور بنگال

کلام رضا کی تفہیم آسان نہیں ،یہ دیوان بھی اپنی تفہیم کے لئے ’’ہر ایک فن ہے ضروری اس ایک فن کے لئے ‘‘کا متقاضی ہے۔بعض اشعار وہ ہیں جنہیں دانستہ اعتراض کا عنوان بنایا جاتاہے ۔’’نوروحدت کا ٹکڑا‘‘بھی ایک شعر کا حصہ ہے جس پر اعتراض کیاگیا حضرت مفتی مبشر رضانے اس سوال کو حضرت فقیہہ النفس کی بارگاہ میں پیش کرکے ہم تمام تشنہ گان علوم پہ احسان کیاہے ۔کیوں کہ ایسے اشعار کی علمی اور ادبی تشریح جو حضرت فقیہہ النفس کرتے ہیں وہ انہیں کا حصہ ہے۔ہم حضرت کے شکریہ کے ساتھ اسے اہل علم تک پہنچارہے ہیں ۔    ادارہ 
    --------------------------------
 ’’حدائق بخشش‘‘میںہے کہ:
جس نے ٹکڑے قمرکے کیے ہیں وہ ہے
’’نورِوحدت کا ٹکڑا‘‘ ہمارانبی
کچھ دیوبندی علماکہتے ہیںکہ اعلی حضرت نے اس شعر میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کواللہ تعالے کے نورکاجزء قراردیاہے ، جوکفر ہے ۔اس لیے گزارش ہے کہ اس کی صحیح توضیح فرمادی جائے!             
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــواب:
گزشتہ صدی میں امام احمدرضا کی ذات علم وفن کاوہ سنگم تھی جہاںشریعت وطریقت کے اصول اور زبان وادب کے قواعد باہم مل گئے تھے ، انہوںنے براہ راست قرآن کریم سے نعت گوئی سیکھی تھی،اس لیے ان کے کلام میںحسن شعری کے ساتھ ساتھ پاس شرع بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔ مگر  ؎                       
چشم بداندیش کہ برکندہ باد
عیب نماید ہنرش در نظر
وکم من عائباً قولاً صحیحاً
وآفتہ  من الفہم  السقیم
بہت سے لوگ صحیح بات پربھی عیب لگاتے ہیںجس میںان کی نافہمی کاقصورہوتاہے۔
سچی بات یہ ہے کہ اس شعر کی توضیح تصوف کی اصطلاح ،عربی زبان کاقاعدہ، اوراردو ادب کے اصول تینوںطریقوں سے ہوسکتی ہے اورکسی بھی طریقہ میں خداے تعالی کے جزء ہونے کاشائبہ تک نہیں پاجاتا۔
(۱) صوفیاے کرام اپنی اصطلاح کے اعتبارسے تجلی کے کئی مراتب بیان کرتے ہیں جن میںسے ایک مرتبۂ وحدت ہے جومرتبۂ احدیت اورمرتبۂ واحدیت کے درمیان برزخ ہے ، ذات بحت کی پہلی تجلی مرتبہ احدیت ہے جس کااشارہ حدیث قدسی  :کنت کنزاًمخفیاًفاحببت ان اعرف فخلقت الخلق  کے پہلے جزء اورارشاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم :کان اللہ ولاشییٔ معہ  میںہے۔
زرقانی علی المواہب ،ج:۱،ص:۵۴میںہے:
الحضرۃ الاحدیۃ ہی اول تعینات الذات واول رتبہا الذی لااعتبارفیہ لغیرالذات کماہوالمشارالیہ بقولہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم :کان اللہ ولاشیئی معہ ذکرہ الکاشی ۔
[مرتبہ احدیت ،ذات کاپہلاتعیُّن اورپہلامرتبہ ہے جس میں غیرذات کااعتباراصلاً نہیں۔اس کی طرف حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میںاشارہ ہے کہ :اللہ تعالی تھااوراس کے ساتھ کچھ نہ تھا ۔اس کو حضرت کاشی علیہ الرحمہ نے بیان فرمایاہے ] 
 اسی پہلی تجلی سے نور محمدی کاوجودہواجس کااشارہ  حدیث قدسی کے دوسرے جزء  فخلقت الخلق میںہے اورجسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابرکی حدیث  : ان اللہ قدخلق قبل کل الاشیاء نورنبیِّک من نورہ میں بیان فرمایاہے
    المواہب  اللدنیۃ،دارالکتب العلمیہ ،ج : ۱، ص:۳۹میںہے:
لماتعلقت ارادۃ الحق تعالی بایجاد خلقہ۔۔۔ ابرزالحقیقۃ المحمدیۃ من الانوارالصمدیۃ۔[جب اللہ تعالی کاارادہ مخلوقات کی ایجادسے متعلق ہوا توصمدی نوروںسے حقیقت محمدیہ کوظاہرفرمایا۔]
اسی نوراحمدی اورحقیقت محمدیہ کو’’وحدت ‘‘ اور’’برزخ اکبر‘‘ سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔
کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم ، ج:۲، ص: ۱۷۷۳میں ہے:
فی لطائف اللغات :الوحدۃ عندا لصوفیۃ عبارۃ عن الاول الذی ہوالحقیقۃ المحمدیۃ ،۔۔۔ وذلک مایقال لہ ایضاً البرزخ الاکبر ،والواحد یۃ والاحدیۃ طرفاہا،الاحدیۃ بانتفاء النُسب والاعتبارات، والواحدیۃ باعتبار ثبوت النُسب والاعتبارات والاضافات ۔
[لطائف اللغات  میںہے کہ صوفیا کے نزدیک ’’وحدت‘‘ اس اول سے عبارت ہے جوحقیقت محمدیہ ہے اورجسے برزخ اکبربھی کہاجاتاہے ۔ جس کی ایک جانب واحدیت اوردوسری جانب احدیت ہے ؛ کیوںکہ احدیت میں نسبتیںاوراعتبارات ملحوظ نہیںہوتی ہیں، اور واحدیت میں نسبتوں، اضافتوں اور اعتبارات کالحاظ ہوتاہے ۔]
علامہ زرقانی نے مواہب اللدنیہ کی شرح ،ج:  ۱، ص:۵۴ میں فرمایاہے:
قولہ:ابرزالحقیقۃ المحمدیۃ‘‘ہی الذات مع النعت الاول کمافی ’’التوقیف ‘‘وفی لطائف الکاشی:یشیرون بالحقیقۃالمحمدیۃ الی الحقیقۃ المسماۃ بحقیقۃ الحقائق الشاملۃ لہا ای :للحقائق والساریۃ بکلیتہافی کلہاسریان الکلی فی جزئیاتہ ۔قال :وانماکانت الحقیقۃ المحمدیۃ ہی صورۃ لحقیقۃ الحقائق ؛لاجل ثبوت الحقیقۃ المحمدیۃ فی خلق الوسیطۃ والبرزخیۃ والعدالۃ بحیث لم یغلب علیہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم اسمہ اووصفہ اصلاً۔ فکانت ہٰذہ البرزخیۃ الوسیطۃ ہی عین النورالاحمدی المشارالیہ بقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’اول ماخلق اللہ نوری‘‘ ای:قدرعلی اصل الوضع اللغوی وبہذاالاعتبار سمّی المصطفی بنورالانواروبابی الارواح ثم انہ آخرکل کامل اذلایخلق اللہ بعدہ مثلہ انتہی ۔قولہ:من الانوارالصمدیۃ‘‘المنسوبۃ للصمد والاضافۃ للتشریف کمافی حدیث جابر عندعبدالرزاق مرفوعاً :یاجابر ان اللہ قدخلق قبل الاشیاء نورنبیک من نورہ ۔
[حقیقت محمدیہ سے مراد ذات مع صفت اول ہے جیساکہ’’ توقیف‘‘ میںہے ۔اورحضرت کاشی علیہ الرحمۃ کی کتاب ’’لطائف ‘‘میںہے کہ حقیقت محمدیہ سے صوفیاکااشارہ اس حقیقت کی جانب ہے جسے حقیقۃ الحقائق سے موسوم کرتے ہیںجوتمام حقائق کوشامل اورسب میںاپنی کلیت سے سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے جس طرح کلی اپنے جزئیات میںسرایت کئے ہوئے ہوتی ہے ۔فرمایا:حقیقت محمدیہ حقیقۃ الحقائق کی صورت اس لیے ہوئی کہ وہ وسیطہ،  برزخیہ اورعدالت کی خلقت میںاس طرح ثابت تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرآپ کے نام ووصف کاغلبہ نہیںہوا۔
تویہ برزخ وسیطہ عین نوراحمدی ہوگیاجس کی طرف حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کَہْ کراشارہ فرمایاہے کہ ’’اللہ تعالی نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا فرمایا‘‘۔ اسی بناپر آپ کانام نورالانواراورابوالارواح بھی ہے ۔ مزید برآں آپ ہرکامل کے آخربھی ہیں؛کیوںکہ آپ کے بعداللہ تعالی آپ کامثیل پیدانہیںفرمائے گا۔انتہی ’’انوارصمدیہ‘‘ میںلفظ صمدیہ ’’صمد‘‘کی طرف منسوب ہے اوراضافت تشریفی ہے جیسے اس حدیث رسول میںجسے عبدالزاق نے حضرت جابرسے روایت کی ہے کہ :اے جابر!یقینا اللہ تعالی نے تمام چیزوںسے پہلے تمہارے نبی کے نورکو پیدافرمایا۔ 
اسی لیے عرفافرتے ہیںکہ وجودوکون میںحق تعالی اول ہے ،اور ایجادوتکوین میں نوراحمدی اورحقیقت محمدیہ  ـــــــــــلہذاجس  طرح مرتبۂ وجودوکون میںلفظ نورکااطلاق نورخداوندی کے لیے ہوتاہے جیساکہ قرآن کریم میںہے :اللہ نورالسمٰوت والارض۔[سورہ نور؍۳۵] اسی طرح مرتبۂ ایجادوتکوین میں نوراحمدی کے لیے بھی اطلاق  ہوتاہے جیساکہ قرآن کریم ہی میںہے :قدجاء کم من اللہ نور [سورہ مائدہ؍۱۵]اورامام احمدرضانے اسی اصطلاح تصوف کے لحاظ سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ’’ نوروحدت ‘‘کالفظ استعمال فرمایاہے ۔اس تقدیرپرمعنی یہ ہوئے کہ وہ نورجو مرتبۂ وحدت میںخلعت وجود سے مشرف ہوا۔
(۲) عربی زبان کاقاعدہ ہے کہ جب دولفظ مل کرایک ہوجاتے ہیںتوبسااوقات اس کے معنی ترکیبی مرادنہ ہوکر الگ معنی مرادہوتے ہیںجس  پر فقہی کتابیں، مفسرین قرآن اورشارحین حدیث کی عبارتیں،ارشادات رسول اورخداکاکلام مقدس شاہد ہے چنان چہ لفظ بین یدیہ ’’بین ‘‘اور’’یدیہ ‘‘سے مرکب ہے ،جس کے ترکیبی معنی ’’انسان کے دونوں ہاتھوںکے درمیان ‘‘ہوتے ہیں۔ مگراستعمال میںبالعموم یہ معنی مرادنہ ہوکر سامنے اورمقابل کے معنی مرادہوتے ہیں۔ 
فقہ حنفی کی تمام کتابوںمیںہے کہ امام جب خطبہ جمعہ کے لیے ممبرپربیٹھ جائے تو
 ’’اذن ثانیابین یدیہ  ‘‘[ دوبارہ  اذان خطیب کے سامنے کہی جائے]۔    
مشکوٰۃ میںہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: 
لویعلم المار’’بین یدی المصلی‘‘ ماذاعلیہ؟لکان ان یقف اربعین خیرالہ من ان یمر’’بین یدیہ‘‘
 [بین یدی المصلی گزرنے والااگرجان لے کہ اس میںکتناگناہ ہے تو]۔
اشعۃ اللمعات میںہے:
اگربداندگزرندۂ’’ پیشِ مصلی‘‘ کہ چہ گناہ است بروے ؟ہرآئینہ باشد ایستادن ونہ گزشتن ’’پیشِ مصلی‘‘ الخ
 [گرنمازی کے سامنے سے گزرنے والے جان لے اس پرکتناگناہ ہے ؟تویقیناً چالیس دن تک کھڑے رہنے اورنمازی کے سامنے سے نہ گزرنے کوبہترسمجھے گا]
    قرآن کریم کے سورہ ٔ آل عمران کی تیسری آیت میںہے:مصدقالمابین یدیہ ۔اس کی تفسیر لباب التأ ویل فی معانی  التنزیل میںیہ ہے:
ان مابین یدیہ فہواَمامہ ۔[بین یدیہ ،سامنے کو کہتے ہیں]۔
سورۂ  یونس کی سینتیسویںآیت میں  ہے :
تصدیق الذی بین یدیہ ۔اس کی تفسیر  الفتوحات الالٰہیۃ میں یہ ہے:
بین یدیہ ای اَمامہ۔ [’’بین یدیہ ‘‘یعنی اس کے سامنے ]۔
سورۂ رعدکی گیارہویںآیت میںہے :من بین یدیہ ۔ تفسیرالجلالین میںہے:
بین یدیہ قدامہ۔[ ’’بین یدیہ‘‘ کامطلب ہے اس کے آگے]۔ 
سورۂ مریم کی چوسٹھویںآیت میںہے:مابین ایدینا۔اس کی تفسیرتفسیرالجلالین میںہے:
مابین ایدینا ای اَمامنا۔[ یعنی ہمارے سامنے]۔    
سورۂ سباء کی نویںآیت میںہے:مابین ایدیہم ۔ اس کی تفسیرالانموذج الجلیل فی اسئلۃ واجوبۃ عن غرائب اآئی التنزیل میں ان لفظوںسے کی گئی ہے:
مابین یدی الانسان ہوکل شئی یقع نظرہ علیہ من غیران یحول وجہہ الیہ ۔
 [انسان کا’’بین یدی‘‘ہروہ چیز ہے جس پرچہرہ پھیرے بغیراس کی نگاہ پڑے ]۔
اورالفتوحات الالہیۃ میں یوں فرمایا گیاہے :
من المعلوم ان مابین یدی الانسان ہوکل مایقع نظرہ علیہ من غیران یحول وجہہ الیہ ۔
 [یہ بات توسب کومعلوم کہ انسان کا’’بین یدی‘‘وہ  ہے جس پراس کی نگاہ چہرہ پھیرے بغیرپڑے ]۔
سورۂ حجرات کی پہلی آیت میںہے:لاتقدموابین یدی اللہ ورسولہ۔ تفسیرمعالم التنزیل میںہے :
معنی بین الیدین  الامام والقدام ۔[’’بین الیدین ‘‘کے معنی آگے اورسامنے کے ہیں]۔ 
اسی لیے بخاری شریف ،ج: ۱ص : ۵۰۲میں حضرت کعب بن مالک سے مروی حدیث :
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذاسُرَّ استنار وجہہ ،حتی کانہ قطعۃُ قمر،وکنانعرف ذلک منہ۔[اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش رہتے ،روے زیبااس طرح چمکتاجیسے چاندکاٹکڑاہو،ہم اسی سے آپ کی  پہچانتے کہ آپ خوش ہیں]
کے تحت  علامہ ابن حجرعسقلانی ،فتح الباری ،ج:۶،ص ۵۷۴میںفرماتے ہیں:
یحتمل ان یکون یرید بقولہ:قطعۃ قمر‘‘القمرنفسہ ۔
[احتمال ہے کہ چاندکاٹکڑاکہنے سے ٹکڑانہیں،خودچاند ہی مراد ہو]
اس صورت میں
جس نے ٹکڑے قمرکے کیے ہیںوہ ہے
نوروحدت کا ٹکڑا ہمارنبی 
کے اندر’’نوروحدت کاٹکڑا‘‘سے مرادٹکڑانہیں، نوروحدت ہی ہوگا۔’ ’ وحدت ‘‘معنوی طورسے نورکی صفت ہوگی اور ’ٹکڑا‘‘ کااضافہ صنعت مشاکلہ کے لیے ہوگا؛کیوںکہ نورشئے متجزی نہیںکہ اس کاٹکڑاہوسکے۔معنی یہ ہوںگے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نوروحدت ہیں۔ 
(۳)اہل علم وادب خوب جانتے ہیںکہ مرکبات کااستعمال جب بطور’’اسم ‘‘ ہوتواس کے مفہوم میں  اجزائے ترکیبی کے معنی نہیںدیکھے جاتے بلکہ کنایہ کے طورپرعلاحدہ مفہوم مرادلیاجاتاہے ۔،جیسے دل کاٹکڑا،جگر کاٹکڑا، چاند کاٹکڑا،نورکاٹکڑاجان کاٹکڑایعنی عزیز ترین محبوب ۔
’’ اردولغت ‘‘میںہے:
’’جان کاٹکڑا ‘‘فارسی زبان سے ماخوذاسم ’’جان‘‘ کے ساتھ ’’کا‘‘بطورحرف اضافت لگانے کے بعد سنسکرت سے  ماخوذ اسم ’’ٹکڑا ‘‘ملانے سے مرکب بنا۔اردومیںبطوراسم مستعمل ہے ۔
قرۃ العین حیدرنے ’’آگ کادریا‘‘ص:۲۹۷پرلکھاہے:
یہ میرے چہیتے ،جان کے ٹکڑے دوست ہری شنکرکی بہن تھی۔
ناخداے سخن میرتقی میر(م۱۸۱۰ء)نے فرمایاہے:
شرکت شیخ و برہمن سے میراپنا ’’کعبہ جدا بنائیں گے ‘‘
یعنی علاحدہ رہیںگے۔
غالب کاشعرہے :
صبح آیا جانب مشرق نظر
اک ’’نگارِ آتشیں رُخ سر کھلا‘‘
یعنی آفتاب ۔
یگانہ چنگیزی نے کہاہے:
فردا کو دور ہی سے ہمارا سلام ہے
دل اپنا شام ہی سے ’’چراغ سحر‘‘ ہوا
یعنی قریب فنا۔
شرف مجددی نے کہاہے:
’’دُختِ رز‘‘ اور تو کہاں ملتی 
کھینچ لائے شراب  خانے سے 
یعنی شراب 
لہٰذا
جس نے ٹکڑے قمرکے کیے ہیں وہ ہے 
نورِ وحدت کاٹکڑا ہمارانبی 
میںبھی’’ نور وحدت کاٹکڑا‘‘ کے ترکیبی معنی مراد نہیںہوںگے بلکہ کنایہ کے طورپرحسن وجمال میںیکتاعزیز ترین محبوب مراد ہوگا ۔