حجۃ العصرمورخ اہل سنت حضرت مفتی محمود احمد رفاقتی :احوال وآثار
ڈاکٹر محمد امجدرضاامجدؔ(قاضی شریعت )مرکزی دارالقضاادارہ شرعیہ بہار
مورخ اہل سنت مرشد باصفانورالاولیا حضرت مفتی محمود احمد رفاقتی علیہ الرحمہ والرضوان[۱۹۴۳؍۲۰۱۸] جیسی شخصیتیں ،قوم، ملت ،جماعت اور ملک کےلئے سرمایہ افتخار کہلاتی ہیں۔جماعت کوان سے تقویت ملتی ہے، ملک وقوم کا نام روشن ہوتاہےاور اس عصر کی علمی اہمیت تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے ۔حضرت مفتی صاحب قبلہ کی ذات ایسی ہی تھی۔وہ فرد میں انجمن تھے۔مگر اپنے علم فضل قوت حافظہ اور یادگار اسلاف میں فرد فرید ۔ان کا دماغ مختلف لائبریریوں کی آماجگاہ تھااوران کی شخصیت میںکئی صدیاں سمٹ آئی تھیں۔مطالعہ کی وسعت اور حاصل مطالعہ پر گرفت ان کی شناخت تھی ۔بزرگوں کے احوال ،خانقاہوں کی روایات ،اشراف کے قبیلے ،ان کی شادیات اور نسل در نسل ان کے آثار ،انساب کے تذکرے،علمائے اہل سنت کی تدریسی تصنیفی اور مختلف النوع خدمات،مدارس کے قیام ،علماکی فراغت اورکتابوں کی اشاعت کے ماہ وسال،غرض حاصل مطالعہ کے نام پر یہ ساری معلومات ان کےنوک زبان پہ ایسے رہتیںجیسے ان تمام موضوعات پہ آپ کو دسترس حاصل ہو۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ کی ولادت ایک علمی وروحانی خانوادہ میں ۳؍جنوری ۱۹۴۳ء بروز جمعہ بھوانی پورضلع مظفرپور میںہوئی ۔ابتدائی تعلیم والد ماجد حضور محبوب خدا،بحر حقیقت ومعرفت،سلطان المناظرین امین شریعت حضرت مفتی الشاہ رفاقت حسین اشرفی علیہ الرحمہ والرضوان(۱۴۰۳ھ) کے سایہ شفقت میں ہوئی ۔پہلے پہل حفظ قرآن کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ سن ۱۳۷۸ھ میں مدرسہ احسن المدارس کانپورکے ایک اجلاس میں حافظ بخاری حضرت مولاناسید شاہ عبدالصد چشتی قدس سرہ (م۱۳۲۳ھ)کے دست مقدس سے حفظ کی دستار ہوئی ۔پھر مختلف مدارس جیسےدارالعلوم شاہ عالم (احمد آباد)مدرسہ اسلامی عربی اندرکوٹ(میرٹھ )مدرسہ عالیہ( رامپور )مدرسہ احسن المدارس( کانپور)میں حضرت مولانا خواجہ مصباح الحسن پھپھوند شریف ،(۱۳۸۴ھ)استاذ العلما حضرت مولانا عبدالعزیز اشرفی صاحب(م۱۳۹۵ھ) شمس العلما مولانا نظام الدین بلیاوی (م۱۹۹۴ء)صدرالعلما مولانا غلام جیلانی میرٹھی (۱۳۹۸ھ)اورحضرت امین شریعت علیہم الرحمہ والرضوان،جیسے باکمال وبافیض اساتذہ سے نحو صرف منطق فلسفہ حدیث تفسیر وغیرہ علوم وفنون کا درس لیااور مدرسہ احسن المدارس( کانپور)سےسن۔۔۔۔ءمیں دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے ۔آپ کی تدریسی صلاحیت اور ذوق علم دیکھ کر فراغت کے بعد مدرسہ احسن المدارس میں ہی تدریسی ذمہ داریاں دی گئیں جنہیں آپ نے بڑے شان وتمکنت سے اداکیا۔۱۳؍سال بعد یہاں سے جوناگڑھ گجرات تشریف لے گئے، وہاں۱۹۸۱ءتک علمی خدمت کے ساتھ، شاہی مسجد میںامامت وخطابت کے فرائض انجام دئے ۔سن ۱۹۷۰ ء میں والدہ ماجدہ کے ساتھ حج وزیارت کے شرف مشرف ہوئے ۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ اپنے والد ماجدحضو رمحبوب خدا امین شریعت حضرت مفتی رفاقت حسین اشرفی(م۱۴۰۳ھ) علیہ الرحمہ والرضوان کے مرید وخلیفہ تھے ،اور انہیں اعلیٰ حضرت حضور اشرفی میاں قبلہ علیہ الرحمہ والرضوان (م۱۳۵۵ھ)سے شرف بیعت واجازت وخلاف حاصل تھا ۔والد محترم کے علاوہ حضور قطب مدینہ علامہ لشاہ ضیاءالدین مدنی خلیفہ اعلیٰ حضرت(م۱۴۰۱ھ) اور حضور مخدوم المشائخ علامہ شاہ مختار اشرف اشرفی جیلانی علیہم الرحمہ والرضوان(۱۴۱۷ھ) کی بھی اجازت وخلافت مرحمت ہوئی تھی ۔حضرت والد ماجد قدس سرہ کے وصال[۱۴۰۳ھ] کے بعد آپ نےسلسلہ بیعت شروع فرمایامگر اسے ترجیحات میں رکھنے کے بجائے درجہ استحباب میں رکھا،اس کے باوجود آپ کےمریدین کی تعداداچھی خاصی ہے ،آپ نے پیری مریدی کے لئے خصوصی اسفار شایدکم ہی کئے ہوں،کیوں کہ آپ کے ذوق کا محور مطالعہ وتحقیق اور تصنیف وتالیف تھاجسے یہ سعادت مرحمت ہوجائے اسے کسی اور کام میں لطف چشیدہ نہیں مل سکتا ۔ ۱۴۰۳ھ مطابق ۱۹۸۳ءکاسن اور شعبان المعظم کی پچیسویں تاریخ عالم اسلام بالخصوص جماعت اہل سنت کے لئے حزن وملال کی تاریخ رہی کہ اسی تاریخ میں علم ومعرفت کا وہ مہر منیر جنہیں دنیابحر حقیقت ،سلطان المناظرین ،محبوب خدااور امین شریعت کہتی تھی،ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگیا۔آپ کی رحلت پرایک جہاں سوگوار ہواآپ پربھی والد ومرشد اور مربی ہونے کے سبب جو کیفیت گزری ہوگی وہ صرف احساس کیاجاسکتاہے بیان نہیں، مگر ہزاررنج وغم کے باوجود آپ نے اپنے وجود کو سمیٹااوراپنی آبائی بستی اسلام آباد(بھوانی پور)کو جہاں حضرت امین شریعت کی تدفین عمل میں آئی ،اپنا مستقل مستقر بنایا اور یہیں سے علمی فکری جماعتی مسلکی اور مشربی تحقیق واشاعت نیزمسجد مدرسہ اور خانقاہ کی تعمیر کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ کی خدمات اوران کے اوصاف کا دائرہ وسیع بھی اور متنوع بھی۔وہ باکمال مدرس بھی رہے،اور محتاط ومتورع امام وخطیب بھی۔نادرروزگار محقق وناقد بھی رہے اور معتمد ومستند مورخ وتذکرہ نگار بھی۔اسلاف کے طریقہ تصنیف کے نمائندہ مصنف بھی رہے اورمتلاشیان حق کے مبلغ ومرشد بھی۔جماعت اہل سنت کے ناشر ومحافظ بھی رہے اورمریدین کے تربیت کے لئے صاحب رشد وہدایت بھی۔تبلیغ دین، احیائے سنت اورمریدین کے تطہیرذہن وفکر کے لئے، مختلف شہروںکے مہمان بھی رہے اورمسجد ومدرسہ اور خانقاہ کی تعمیرات کے مثالی معار بھی۔غرض ان کی شخصیت کی متنوع جہتیں ہیں جو ہمیں ان کی بافیض ،متحرک اور فعالی وانفعالی زندگی کا پتہ دیتی ہیں ع خدارحمت کندایں عاشقان پاک طینت را حضرت مفتی صاحب قبلہ کے تعمیری کاموںمیں خانقاہ رفاقتیہ خواجہ منزل۔مسجد امین شریعت۔روضۃ امین شریعت۔باب اشرفی۔دارالعلوم امین شریعت اورغریب نواز اسکول ،فخر اوررشک بھری نگاہوں سے دیکھنے کی چیزیں ہیں ۔یہ ساری تعمیرات محض اینٹ پتھر لوہاسمینٹ سے نہیں بلکہ محبت عقیدت اخلاص اور جذبہ سے تعمیر کی ہوئی عمارتیں ہیں جن کو دیکھنے اور جہاںحاضری دینے میں کیفیت کااحساس ہوتاہے۔ آپ کی زندگی کا اصل کارنامہ علم وتحقیق اور تصنیف و تالیف ہے۔یہ آپ کا ایساوصف ہے جس نے ہندوپاک میں آپ کو علماودانشور ان کا مرجع بنادیاتھا۔احوالِ رجال،تذکرۂ انساب ،خانقاہوںکے حالات اور رضویات کے حوالہ سے آپ کا مطالعہ انتہائی وسیع اور قابل رشک تھا۔مجھے ان کی بافیض مجلس میں ۱۹۹۰ سےان کے سن وصال(۲۰۱۸ء)تک بیٹھنے کا موقع ملا ۔جن دنوں میں الجامعۃ الرضویہ میں مدرس تھا حضرت مفتی صاحب قبلہ حضور ملک العلماعلامہ شاہ ظفرالدین قادری رضوی علیہ الرحمہ والرضوان(م۱۳۸۲) کی مستند تصنیف ’’حیات اعلی حضرت ‘‘ کی اشاعت کے حوالہ سے تحقیق انیق اور ترتیب جدید میں مصروف تھے۔ میرے رفیق وہمدم مولانا قمرالزماں مصباحی ،اور میں اسی حوالہ سے حضرت کی بارگاہ میں باریاب ہوتا ،کتابت شدہ کاپیاں پیش کی جاتیں،مزید تحقیق کے لئے اشاریات فراہم کئے جاتے ۔اسی درمیان نوازشات بھی ہوتیں اور جب کسی موضوع پہ گفتگو شروع ہوتی تو لگتاجیسے حریم ذہن سےمعلومات کازمزم ابل رہاہےاورہم اس سے سیراب ہورہے ہیں ۔سچ ہے ؎ان کی محفل میں بیٹھے والاآدمی خوش نصیب ہوتاہے آپ کی تصانیف جس معیار کی ہوتی تھیں اس کا اندازہ اسی سے لگایاجاسکتاہے کہ اکابر علماومشائخ اور یونیورسیٹی کی دنیاکے افراد سبھی اسے اعتبار واستناد کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔اس طرح کی تصانیف قلم برداشتہ نہیں ہوتیں،بلکہ کاہ کنی و شیر برآوردنی کے مراحل سے گزرنا ہوتا ہے مگر اس کے باوصف ہم دیکھتے ہیں کہ مفتی صاحب قبلہ کی مطبوعہ وغیر مطبوعہ تصانیف کی تعداد۱۳؍سے متجاوزہی ہے۔ اس تعدادسے اندازہ ہوتاہے کہ مفتی صاحب نے ’’زندگی آمد برائے بندگی ‘‘ کے فلسفے کو ہمیشہ پیش نظر رکھا اور حیات مستعار کے ایک ایک لمحہ کو سرمایۂ آخرت بنانے میں سرف کیا ۔ذیل میںمفتی صاحب کی نمایاں تصانیف کی فہرست ملاحظہ کریں پھر بعض تصانیف کے حوالہ سے کچھ عرض کیاجائےگا۔تذکرہ علمائےاہل سنت مطبوعہحیات شاہ آل رسول احمدی مارہری مطبوعہمکتوبات امام احمد رضا مطبوعہحیات مخدوم الاولیا مطبوعہسوانح رفاقتی مطبوعہحیات حجۃ الاسلام مطبوعہخیرآبادی علما غیر مطبوعہشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے افکاروعقائد غیر مطبوعہپاکان امت (چارجلدیں) مطبوعہحسام الحرمین کی بارگاہ میں اہل سنت میں اختلاف وتفریق کے المناک واقعات مطبوعہخیرالمجالس ترجمہ غیر مطبوعہملفوظات الرکنیہ ترجمہ غیر مطبوعہحیات اعلی حضرت تحقیق و ترتیب ِجدید مطبوعہ ان تصنیفات کے علاوہ مقالات ومضامین کی تعداد بھی سوسے متجاوز ہی ہوگی جو خالص تحقیقی اور معیارواقدار کے اعتبار سے قابل استناد ہےاگر انہیں موضوعاتی اعتبار سے مرتب کردیاجائے تو کئی مزید کتابیں تیارہوسکتی ہیں ۔ان تصنیفات میں غالبا چھ کتابیں ایسی ہیں جو مصنف کی حیات ہی میں طبع ہوکر مقبول ومحمود ہوچکی تھیں بقیہ :حیات حجۃ الاسلام ،پاکان امت (چارجلدیں)آپ کے جانشین و شہ نشین حضرت مولانا عامر اشرف رفاقتی دام ظلہ نے حضرت کے وصال کے بعد اپنی نگرانی میں طبع کرائیں اور صاحبان ذوق کے مطالعہ کی نذر کیں ۔ بقیہ کتابیں تسوید سے تبییض کے مرحلہ میں ہیں ۔ان شاءاللہ وہ بھی اور ان کے علاوہ دیگر علماکی کتابیں بھی جلد ہی منظرعام پہ آئیں گی کہ حضرت کے جانشین ان کی منشاکے مطابق ان تمام کتابوں کو منظر عام پہ لانے کےلئے کوشاں ہیں جو مفتی صاحب کی ترجیحات یا ان پسندیدہ تصنیفات میں شامل تھیں اور جس کی ضرورت علیٰ حالہ ہے۔ آپ کی پہلی تصنیف ’’تذکرہ علمائے اہل سنت ‘‘ہے جس نے اکابر علماومشائخ اور ارباب فکرونظر کو مسرور ومسحور کردیاتھا ۔سن ۱۳۹۵ھ میں یہ کتاب پہلی بار اشاعت پذیر ہوئی تو خود مفتی صاحب کی تحریر کے مطابق اصحاب فضل ومعرفت اور صاحبان علم وادب نے اس پہ گرانقدر تاثرات پیش کئے چنانچہ حضور حضورمفتی اعظم ہند (م۱۴۰۱ھ)نے فرمایا:محمود میاں نے تذکرہ علمائے اہل سنت اچھی کتاب لکھی ۔اس کے کچھ مطبوعہ اوراق مکۃ المکرمہ میں دکھائے تھے،اس کی ضرورت تھی ان سے کہیں کہ دوسری جلدیں بھی لکھ دیں ۔(مقدمہ پاکان امت)علامہ ارشد القادری (م۲۰۰۲ء)کے حوالہ سے خود انہوں نے ان کی کیفیت بیان کرتے ہوئے لکھا :زعیم اہل سنت علامہ ارشدالقادری بھی ہاتھ ہلاہلاکر کہتے محمود میاں!آپ کی ’’تذکرہ علمائے اہل سنت‘‘حوالہ کی کتا ب ہے ۔اپنے علماپر جوبھی لکھے گا اس کو کام آئے گی ۔ذرازحمت کرکے جلدی جلدی اور جلدیں لکھ دیجئے ۔(مقدمہ پاکان امت)اسی طرح پاک وہند بلکہ عرب دنیا کے اہل ادب کےیہاں متعارف ومقبول صاحبزدہ ملک العلما پروفیسر مختارالدین آرزو (م۲۰۱۰ء)نے کہا:آپ کی یہ کتاب حوالہ کی کتاب بن گئی ہے اس موضوع پر آپ سے بہتر کوئی لکھ بھی نہیں سکتا ۔(مقدمہ پاکان امت) ان تاثرات سے ظاہر ہے کہ مفتی صاحب قبلہ کی تصنیف معیار تحقیق کاحوالہ ہوتی تھی ۔وہ جو کچھ لکھتے تھے وہ متعدد کتابوں کے مطالعہ اور ماخذاول کے حوالے سے لکھتے تھے۔اور ان کے سامنے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہ (م ۱۳۴۰ھ)کے رسالہ’’ حجب العوار عن مخدوم بہار‘‘ میں پیش کردہ اصول تحقیق وترتیب متن کا معیار رہتاتھا ۔اپنی شہکار کتاب ’’پاکان امت ‘‘کی پہلی جلد کے مقدمہ میں خود بھی لکھتے ہیں :اخذواقتباس کے معاملہ میں ثانوی ماخذوں کے استفادہ سے گریز کیاگیا ۔رائج الوقت رواج اسلوب بیان سے دوری رکھی گئی۔اعتدال وتوازن کی زمام پر مضبوط گرفت بھی قائم رکھی ۔ذہن ودل کو اعتساف وتخرب پسندی سے دور رکھا۔بزرگوں کے احوال واوصاف اور فیوض کابیان تقدس وتوقیر کے پیرایہ میں کرنے کی پابندی کی۔ ہمارے مذہب اسلام کا سرمایہ تقدس وتوقیر پر ہے ۔تقدس وتوقیر نہ ہوتو دل متاثر نہیں ہوتا ۔جب دل متاثر نہیں ہوتاتو بے فیض اور محروم رہتاہے۔تقدس کے حوالہ سے احوال کی تعمیر اور باطن کی تنویر ہوتی ہے ۔ظاہرہے، جو تصنیف اس معیارتحقیق وتنقیح کے اصولوں پر مبنی ہوگی،اہل علم وصاحبان فکرونظر اسے بنظر تحسین ہی دیکھیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کتاب ’’تذکرہ علمائے اہل سنت‘‘سے، آج تک لوگ بطور ماخذ استفادہ کررہے ہیں۔ مفتی صاحب کی تحقیق کے مطابق پاکان امت کی تصنیف تک تقریبا ۲۵۰؍حوالے اس کتاب سے دئے جاچکے تھے۔یہ بھی ذہن نشیں رہے کہ آپ کی ’’پاکان امت‘‘تذکرہ علمائے اہل سنت ‘‘ہی کے نہج کی دوسری تصنیف ہے جودسویں صدی سے لےکر چودہویں صدی تک کے صاحبانِ حال و قال اور اصحاب خدمت بزرگوں کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔تذکرہ علمائے ہند کےبعد خالص اہل سنت کے اکابرعلماوصلحاپہ لکھی گئی، یہ واحد کتاب ہے جو چارصدیوں کےپاکان امت کے احوال وآثار کااحاطہ کرتی ہے۔اس موضوع پہ اس سےزیادہ جامع ماخذ اور کہیں نہیں ہے یہ اس کتاب کی منفرد خصوصیت ہے۔ آپ کی دوسری کتاب ’’مکتوبات امام احمدرضا‘‘ہے جس نے رضویاتی ادب میں گویا’’رنگ جمانے ‘‘کاکام کیا۔ہندوپاک سے اس کی کئی بار اشاعت ہوئی اور اعلیٰ حضرت کی شخصیت کو ان کے مکتوبات کے حوالہ سے پڑھنے اور پہچاننے کا پہلی بار موقع ملا۔اس مقدمہ میں حضرت مفتی صاحب نے بیان واقعہ کے ساتھ اعلیٰ حضرت سے اپنی والہانہ محبت کا جس پیرایہ میں اظہارکیاہے وہ ہمیں اشکبار کردیتاہے ۔ان کے مقدمہ کایہ حصہ باربار پڑھنے کوجی چاہتاہے قارئیں بھی پڑھیں آپ لکھتے ہیں :اعلی حضرت عظیم البرکت کی زندگی کا مشن، عشق رسول عربی کا ابلاغ تھا۔ ان کی نگاہ اٹھتی تو اس میں جلوۂ حضور کی زیبائی نظر آتی اور جب جھکتی تو ان کے عشق سے سرشار رہتی۔ اعلی حضرت چلتے تو عشق رسول اور اتباع سرور کائنات کا پیکر جمیل دکھائی پڑتے اور سوتے تو نام نامی کی لفظی تصویر بن جاتے ۔ان کا راہوار قلم چلتا تو ناموس رسول کی پاسداری میں چلتا ان کے لبہائےئے مبارک کھلتے تو زمزمہ نعت الااپتے، ان کا نغمہ نعت’’ مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام ‘‘آج بھی مردہ دلوں میں عشق رسول کا سرور پیدا کر دیتا ہے۔ ذات رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شیفتگی و وابستگی نے ان کودائم الحضوری کا منصب جلیل عطا کر دیا تھا اور یہ اسی غلامی رسول عربی کا صلہ تھا کہ اس دورِ کفر و الحاد میں’’ تحریک عشق رسول ‘‘کا اجالا ان کے دم سے پھیلا اور وہ اس تحریک کےعلمبردار اور پیشوا تسلیم کیے گئے اورعشق رسول کے متوالوں نے زمان و مکان کی حدود سے بالاتر ہو کر اپنا ان سے انتساب اپنے لیے فخر سمجھا۔ اعلی حضرت امام اہل سنت (م ۱۳۴۰ھ)کا یہ وصف ان کے بڑے سے بڑا دینی مخالف تسلیم کرتا تھا مولانا تھانوی کی گواہی اور ان کا اعتراف اس کے لیے کافی ہےاسی کتاب کے مقدمہ کے مطالعہ سے معلوم ہواکہ رضویات کا انہوں تقریبا ۱۶؍سال بالاستیعاب مطالعہ کیا۔فتاویٰ رضویہ کے مسائل، جلد ابواب ا ور صفحات کے ساتھ ان کے پردہ ذہن پہ مرتسم تھے۔یہی حال دیگر تصنیفات رضاکاتھا ،اعلیٰ حضرت کی تصنیفات کی اولین اشاعت کا نسخہ بھی یہیں دیکھنے کو ملتا۔ اس لئے ہندوپاک کے اکثر محققین ان سے مراسلات کرتے اور اپنے حصے کی غذا پاتے تھے ۔رضویات پہ اتنا گہرامطالعہ رکھنے کے بعد انہوں نےاس موضوع پہ لکھنے کے لئے خود کو آمادہ کیا ۔ان کا یہ وصف ہم جیسوںکے لئے قندیل ہدایت ہے جو راتوں رات کسی موضوع پہ مصنف بننے کا جذمہ نامحمود اپنے اندر لئے پھرتے ہیں حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں:ان سطور کے راقم گنہ گارفقیر قادری نے اپنی زندگی کے بیش قیمت سولہ سال علوم و معارف رضویہ کے مطالعہ وتحقیق پر صرف کئے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے،اسی محنت کا ایک ثمر’’مکتوبات امام احمد رضا ‘‘کی شکل میں پیش کر رہا ہوں ،خدا کرے یہ خدمت قبول امام ہو۔ حضرت مفتی صاحب قبلہ مشربی اعتبار سے اشرفی تھے،پیر خانہ سے جو محبت کسی کوہوسکتی ہے اس سے کہیں بڑھ کے کو آپ اپنے پیر خانہ کچھوچھہ مقدسہ کی شخصیات سے محبت و عقیدت تھی ۔تحریرہویاتقریر،سب میں ان کےیہ جذبات نمایاں تھے۔مگر اسی کے ساتھ اعلیٰ حضرت(م۱۳۴۰ھ) ،حضور حجۃ الاسلام(م۱۳۶۲ھ)حضور مفتی اعظم ہند(م۱۴۰۱ھ)حضور مفسر اعظم ہند(م۱۳۸۵) اور حضور تاج الشریعہ (م۲۰۱۸ء)سے بھی آپ بے پناہ محبت اور جذباتی لگاؤ رکھتے تھے ۔حیات اعلیٰ حضرت ‘‘پہ جن دنوں حضرت، تحقیق وترتیبِ جدید کاکام کرہے تھے میں اور میرے رفیق محترم مولانا قمرالزماں مصباحی ان کےحضور کبھی حاضر ہوتے اور ان بزرگوں کا ذکر چھڑجاتا تو بس’’یوں لب کشاہوئے کہ گلستاں بنادیا‘‘کا سماںبندھ جاتا، گھنٹوں بیت جاتا ،مگر اس ذکر سے نہ انہیں تھکاوٹ ہوتی نہ ہم لوگوں کو اکتاہٹ۔عشاقان رسول کے تذکرہ کی تاثیر ایسی ہی ہوتی ہے ع وہ کہیں اور سناکرے کوئی شومی تقدیرسےجن دنوں اشرفیؔ رضویؔ اختلافات اپنے شباب پر تھے حضرت مفتی صاحب قبلہ فریق بننے کے بجائے ’’حسام الحرمین کی بارگاہ میں اہل سنت میں اختلاف وتفریق کے المناک واقعات‘‘نامی کتاب لکھ کر اپنے درد کااظہار کررہے تھے۔آگ لگانے والوں کے لئے یہ خوشی کاموقع تھا مگر جن بزرگوں نے سلسلہ اشرفیہ اور سلسلہ رضویہ کو اہل سنت کی دو آنکھ کہاتھا وہ اشک بداماں تھے۔مفتی صاحب قبلہ بھی اس سانحہ سے دکھی اورشاکی تھے ،مگر اوروں کی طرح ان کاہاتھ کبھی بزرگوں کے گریباں تک نہیں پہنچا،بلکہ اس کا خیال بھی نہیں گزرا۔وہ مودب ہی رہے اور اسی کا درس دیتے رہے۔پاکان امت کے احوال لکھتے ہوئے ان کے سامنے ’’دست وگریباں ‘‘کےکئی ایسے واقعات وسانحات بھی آئے جسے نقل کرناان کے قلم ادب شناس نے گوارانہیں کیااور وہ اس سے دامن بچاکے نکل گئے ۔مقدمہ میں انہوں نے اپنے روش کی وضاحت کی اور لکھا :بعض زمانے کے علمائے اخیار کے درمیان اختلاف میں آویزش کی صورت میں دراندازی کی تھی یہ آویزش مسائل ومعمولات واستدلال میں ہوئی ہے ان کے بیان میں ان کے اخلاف نے جراحت کارویہ اختیار کیاہے انہوں نے حب علی میں سب معاویہ رضی اللہ عنہ کی روش اپنائی ۔ہم نے شخ الاسلام علامہ امام عارف باللہ قاضی محب اللہ چشتی بہاری قدس سرہ کی روش پر اکابر اسلاف کی توقیر برقرار رکھی ،وہ سرکار رسالت علیہ الصوٰۃ والسلام کے وارث ونائبین ہیں اس کا سب کو اعتراف ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اشرفی ورضوی تنازع کے بعد انہوں نے ’’حیات حجۃ الاسلام ‘‘ لکھی اور خوب لکھی ۔اس کتاب کی علمی وتحقیقی شان اپنی جگہ،مگراس کی سطر سطر سےحجۃ الاسلام (م۱۳۶۲ھ)کی محبت و عقیدت کی جو خوشبو پھوٹتی ہے وہ اس موضوع پہ لکھی گئی کتابوں میں شاذونادر ہے۔اسی طرح حضور مفسر اعظم ہند علامہ شاہ ابراہیم رضاخاں جیلانی میاں علیہ الرحمہ والرضوان (م۱۳۸۵ھ)کا ذکر جمیل جس پیرامحبت میںآپ کرتے تھےوہ کسی دوسرے سے آج تک میں نےسناہی نہیں۔کیا عشق تھا ،کیا ربط تھا اور کیسی حضوری تھی اللہ جانے!مگر مجھ پر ان کے اس والہانہ تذکرہ سے جو کیفیت گزرتی تھی،وہ میں جانتاہوں ۔ حضرت مفتی صاحب پہ لکھنے کے لئے ان کے ماخذات علمی کے علاوہ مجھے اپنے مشاہدات وتجربات بہت کافی ہیں جو کچھ لکھا ہے وہ ابھی ناکافی ہے ۔پردہ ذہن پہ کئی ایسے واقعات ہیں جو صفحہ قرطاس پہ منتقل ہوناچاہتے ہیں مگر ایک مضمون میں اس کی گنجائش کہاں؟حیات اعلیٰ حضرت کی طباعت کے واقعات ،حیات شاہ آل رسول احمدی مارہری کی اشاعت کے احوال،پاکان امت کی کتابت واشاعت کی پرکیف وپرسوز داستان ،مرکزی ادارہ شرعیہ کی صدارت کے حقائق،ان کے بارعب وپر اثرشخصیت کا قصہ اور مجلسی گفتگو میں سب کو مسحور کردینے والی کیفیت،سب ابھی باقی ہی ہے۔ ان شاءاللہ جلد ہی یہ تشنۂ اظہار بھی آئینہ تذکار ہوگا ۔ افسوس !کہ فضل وکمال کی وہ جامع شخصیت ۹؍رمضان المبارک ۱۴۳۹ھ مطابق ۲۶؍مئی ۲۰۱۸ء کومحض۷۵؍سال کی عمر میں ہم سے رخصت ہوگئی اور مسجد امین شریعت کے شمالی حصہ میں اس کشتۂ محبت کو آرام سے سلادیا گیا ۔ان کے جاتے ہی علمی دنیا میں ایک کہرام مچا۔کسی نے انہیں قاموسی شخصیت ،عارف و دائرۃالمعارف کہا،توکسی نےاہل سنت کی تاریخ کا معتبر حوالہ۔ کسی نےان کوتاریخ اسلام تصوف اور رضویات میں سند کا درجہ کہاتو کسی نےتحقیقی اعتبار سے اہل سنت کا قاضی عبدالودود۔(م۱۹۸۴ء)کسی نے نابغہ روزگار اور فرید العصر کہاتو کسی نے حجۃ العصر اور جلال وجمال کاپیکر۔ظاہر ہے ایسی شخصیت کا دنیاسے رخصت ہوجانا،پوری دنیا کے لئے سانحہ اور علمی دنیا کے لئے اس سے بڑاخسارہ ہے۔ اللہ رب العزت حضرت کے مرقد اطہر پہ اپنی رحمتوں کی بارشیں برسائے اور ان کی خدمات کو قبولیت کے شرف سے مشرف فرمائے۔آمین آمین آمین بجاہ سید المرسلین وبرحمتک یاارحم الراحمین ۔